بکاؤ صحافت اور جسم فروش طوائف

محمد خان طور مکی

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن صحافت کسی قوم یا ملک کے لیے ایک بنیادی ستون کے مانند ہے۔ عدالت، اسمبلی اور انتظامیہ سے واسطہ پڑنے سے پہلے ہی عوام کا عوام کے ساتھ اورعوام کا اداروں کے ساتھ جو ربط اور تعلق پیدا ہوتا ہے اس کا زیادہ تر دارومدار ایک ایسے واسطے پر ہوتا ہے، جو ان کے مابین ایک طرح سے ’’ثالث کے سا کردار کا حامل ہو اور رابطہ قائم ہوجائے۔ اس ثالث بننے والے واسطے کا نام صحافت ہے۔ صحافت کا بنیادی کام اپنے مفادات کو ایک طرف رکھ کر عوام کی امنگوں کی ترجمانی اور ان تک غیرجانب دارانہ معلومات کی ترسیل ہے اوراگر صحافت عوام کی ترجمانی چھوڑ کر اپنے مفادات اور حکم ران طبقوں کی ترجمانی شروع کردے اور عوام کا ’ماؤتھ پیس‘ بننے کی بجائے خواص کو دلاسا دینے میں مصروف ہو جائے، تو یہیں سے ’’یلوجرنلزم‘‘ یا ’’زرد صحافت‘‘  کا آغاز ہوتا ہے۔

یوں تو کئی صاحبِ فکر اور صاحبِ قلم افراد سعادت حسن منٹو صاحب کو اس کے ڈوک ٹوک اور برہنہ افکار کی وجہ سے برا بھلا کہتے اور اسے ایک فحش افسانہ نگار سمجھتے رہے ہیں لیکن کیا کہنے اس فحش افسانہ نگار کے، جس کے افسانے بہت سے دانش وروں کے مجموعی افکارکی حقیقت تک پر غالب ہیں، جس کی باتیں معاشرے میں موجود حقیقت کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔

یوں تومنٹو صاحب نے اپنے افسانوں کے ذریعے معاشرے میں اٹھنے والے طوفان کی وجہ بیان کی ہے مگر ساتھ ہی منٹو صاحب صحافت کے بارے میں بھی گویا ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’بکاؤ صحافت سے ایک طوائف اچھی ہے‘‘، منٹو صاحب کی اس بات سے شاید ہمارے بہت سے صحافی ناراض ہوں گے لیکن سچ تو یہ ہے کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔ خدا نے انسان کی فطرت میں کڑوےپن کوجذب کرنے کی صلاحیت رکھی ہے مگر انسان سچ کو قبول کرنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتا اور ہمیشہ حقیقت کو سننے اور سنانے کی بجائے حقیقت سے دور بھاگنے کے لیے کمربستہ رہتا ہے۔

انسان کے اندر اگر سچ اور حقیقت کو تسلیم کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے تواسی لمحہ جھوٹ اورمنفی پروپیگنڈا کی تمام دکانیں بند ہو جائیں گی۔ ورنہ بدنام زمانہ منٹو جیسے افسانہ نگار تکرار کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ بکاؤ صحافت سے ایک طوائف اچھی ہے۔

کوٹھے کی بے راہ راوی سے شاید معاشرہ آہستہ آہستہ بگاڑ کی طرف جاتا ہو لیکن چونکہ صحافت میں صحافتی مواد سورج کے روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز سفرکرتا ہے، اس لیے سامعین اور ناظرین اس سے بہت جلد متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور وہ اس بکاؤ صحافت سے دکھانے والے ڈرامے، فلم، مارنگ شو، ٹاک شو، خبر وغیرہ وغیر ہ سے متاثر ہوکر اپنی حقیقی زندگی تک کو اجیرن بنا لیتے ہیں۔

صحافت میں جھوٹ ہمیشہ حقیقت کا لباس پہنا کر معاشرے کو کانوں کان خبر کیے بغیر عریاں بناتا ہے لہذا اس صحافت کو صحافت نہیں بلکہ زر خرید صحافت یا زرد صحافت یا بکاؤ صحافت ہی کہا جا سکتا ہے جو جسم فروش معاشرے میں پھیلی سڑاند سے سو گنا زیادہ بدبودار ہے۔ اس سے انسان تو زندہ رہتا ہے لیکن انسانیت ہر روز برہنہ ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں آج کل ’’زر خرید صحافت‘‘ یا ’’بکاؤ صحافت‘‘ کا دور دورہ ہے۔ کبھی یہ صحافت ریونیو کم ملنے کے خدشے سےکسی علاقے کی کوریج نہیں دیتی توکبھی کسی علاقے یا خطے کو قومی سطح پر غیر اہم سمجھ کرخبر کا ایک ٹکر تک چلانا گوارا نہیں کرتی۔ دیکھنے میں تو ہمارا قومی میڈیا آزاد ہے اور ’’فریڈم آف ایکسپریشن‘‘ یا ’آزادیء اظہار رائے‘‘ کی ڈیمانڈ بھی کرتا ہے لیکن جو فریڈم آف اکسپریشن انہیں حاصل ہے، اس میں بھی عموماﹰ خاموش رہنے ہی کو ترجیح دیتا ہے۔

فریڈم سے ان کا کیا مطلب ہے؟جو فریڈم ان کو حاصل ہے، اس میں یہ لوگ کس حد تک اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں؟ اس کا اندازہ مشکل نہیں بلکہ بے حد آسان ہے۔ ایک طرف گلگت بلتستان میں لوگ غیر آئینی اور غیر قانونی ٹیکسیزکے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے ہیں، تو دوسری طرف ہمارے میڈیا کے مردے گہری نیند نیند سو رہے ہیں ااور گلگت بلتستان میں جاری احتجاج کے حق میں بولنا تو دور کی بات احتجاج کی ایک کلپ تک نہیں دکھائی جا رہی۔

یہ ہے ہمارا ’آزاد میڈیا‘ اور اس کا دہرا اور مسخ شدہ چہرہ، جو آزادی کے نام پر عوام کو نہ صرف گمراہ کر رہا ہے بلکہ عوام کے جذبات کو بھی مجروح کر رہا ہے۔ اگر ’آزاد میڈیا‘ بھی بکاؤ ہو سکتا ہے، تو منٹو نے کب غلط کہا تھا کہ بکاؤ میڈیا سے ایک جس فروش طوائف بہتر ہے۔