بے حس معاشرے میں قصور کی زینب کہاں جائے
شفیق طوری، اسلام آباد
قصور میں درندہ صفت انسان نے سات سالہ بچی زینب کو بار، بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کیا اور نعش کچرے کی ڈھیر پر پھینک دی، واقعے نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔
حسب روایت وزیراعلیٰ شہباز شریف نے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے نوٹس لیا، پولیس افسر کو او ایس ڈی بنا کر ہٹایا اور جے آئی ٹی تشکیل دے کر تفتیش کا حکم صادر کیا۔
سب سیاستدانوں اور وفاقی کابینہ نے واقعے کی مذمت کی اور تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ آرمی چیف نے نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات میں مدد کا یقین دلایا اور چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے چوبیس گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
معمول کے نعرے اور مذمتی بیانات اور احتجاج سے بات آگے نکل گئی ہے۔ معاشرہ بگاڑ کی طرف جا رہا ہے۔ معاشرہ جنونیت کی آخری حدود پار کرچکا ہے۔ انسان نما درندے دندناتے پھرتے ہیں لیکن ادارے اور حکومت مکمل طور پر ناکام اور بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔
پچھلے سال یعنی 2017 میں قصور میں 280 بچوں کیساتھ زیادتی کا کیس سامنے آیا تھا۔ ملزمان پکڑے گئے لیکن کوئی مناسب پیش رفت سامنے نہیں آئی۔2017 میں قصور میں بارہ بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیے گئے، تین مجرموں کو پولیس مقابلے میں مار دیا گیا اور باقی کا پتا نہیں۔ اسی تناسب سے پورے پاکستان کا اندازہ لگائیں جہاں روزانہ کئی زینب یا کوئی فیضان انسان نما درندوں کے وحشیانہ ہوس کا نشانہ بننے کے بعد قتل کیے جاتے ہیں اور ان کی لاشیں کچرے کے ڈھیر پر ملتی ہیں۔
زینب کے والدین عمرے کے ادائیگی کے لیے حجاز مقدس گئے تھے اور زینب کو اپنے چچا کے گھر چھوڑ گئے تھے۔ زینب پچھلی گلی میں موجود کسی استاد سے قرآن پاک سیکھ رہی تھیں اور وہاں جاتی رہتی تھی۔
پھر چار دن پہلے زینب ٹیوشن جاتے ہوئے لاپتہ ہو گئی اور تھانے میں مقدمہ درج ہوا، جیو فینسنگ کے باوجود پولیس بچی کو بازیاب کرانے میں ناکام رہی اور پھر پانچویں روز لرزہ خیز، خوفناک اور دردناک واقعہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں آرمی پبلک اسکول کے بعد ایک مرتبہ پھر قومی بحث شروع ہو گئی۔ دہشت گردی کے بعد جنسی تشدد کے خلاف پورا پاکستان بول اُٹھا ہے اور غم و غصے کے اظہار کے ساتھ تجاویز بھی پیش کر رہا ہے۔
واقعے کے سی سی ٹی وی فوٹیج سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کوئی رشتہ دار یا جاننے والا زینب کا ہاتھ پکڑ کر لے جا رہا ہے۔
اب اس واقعے کے کئی پہلو ہیں اور اس کی روک تھام کے سلسلے میں حکومت، پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ معاشرہ بھی برابر کا ذمہ دار ہے جبکہ والدین کو بھی اپنے بچوں کا خیال رکھنا ہوگا۔
قصور واقعہ پہلا واقعہ نہیں مگر اللہ کرے کہ یہ آخری واقعہ ہو لیکن معاشرے کو بحیثیت مجموعی اب بیدار ہونا پڑے گا۔ قصور واقعے میں ملوث شخص کو ویڈیو میں بچی کے رشتہ دار، محلے دار اور شہر والے ضرور پہچان سکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ویڈیو سے لی گئی تصاویر اور اسکیچ قصور کے ہر مرد و زن تک پہنچایا جائے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اپنے قریب رکھیں اور بچوں کو سمجھائیں کہ کس کے ساتھ جانا ہے اور کس کے ساتھ نہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اسکول تک چھوڑنے کے لیے مناسب اقدامات کریں، ڈرائیور، استاد اور وہ مولوی جو قرآن مجید پڑھانے آتا ہے سب پر گہری نظر رکھیں اور اندھا اعتبار کسی پر بھی نہ کریں۔
والدین کو چاہیے کے اپنے رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کے ساتھ بچوں کو اس وقت کھیلنے کودنے دیں، جب وہ خود موجود ہوں۔
جس علاقے میں زینب کا قتل ہوا اس علاقے کے SHO کو دو ماہ پہلے ٹی وی اینکر اقرار الحسن نے 25 ہزار رشوت لینے پر پکڑا تھا، اس کو جیل ہوئی لیکن وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اس کو چھڑوا کر ’’میرٹ‘‘ پر دوبارہ اسی تھانے میں لگوا دیا ہے، جس تھانے کی حدود میں زینب کے ساتھ یہ دل خراش واقعہ رونما ہوا۔ اب ایسی حکومت اور پولیس سے آپ کیسے توقع رکھیں کہ وہ آپ کے بچوں کی حفاظت کرے گی؟ بالکل نہیں جناب، ایسی پولیس کی ذمہ داری ہے کہ اگر آپ زینب کی قتل پر احتجاج کریں تو آپ کو بھی گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیا جائے گا اور یہی پنجاب پولیس نے قصور میں بھی کیا۔ زینب کی قتل پر مشتعل ہجوم نے احتجاج کی کوشش کی تو انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور دو افراد مزید قتل کردیے۔
پاکستان میں کم از کم چھبیس جاسوس ایجنسیاں کام کر رہی ہیں لیکن لگتا ہے سب میڈیا میں گستاخ بلاگرز، ٹویٹر اور فیس بک پر پاکستان اور مذہب کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں اور بچوں سمیت پورے ملک کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، وہ چاہے خودکش دھماکے کریں یا کسی بچی کو اُٹھا کر جنسی ہوس کا نشانہ بنائیں اور کچرے کی ڈھیر پر پھینک جائیں۔
پاکستان کے دیگر ادارے رئیل اسٹیٹ سے لے کر بینکوں اور بچوں کے لیے پمپرز بنانے تک کے کاروبار میں مصروف ہے لیکن ملک میں جاری دہشت گردی اور معاشرے کی اصلاح میں کسی کو دلچسپی نہیں۔
پاکستان میں بیوروکریسی، سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ ان کے بچے یورپ اور امریکا میں پڑھتے ہیں تو پاکستان میں اسکول، کالج اور اعلیٰ تعلیم کے لیے بین الاقوامی معیار کے یونیورسٹیاں کیوں قائم کریں؟ ان کے بچوں کا علاج یورپ اور امریکا میں ہوتا ہے تو یہ پاکستان میں اعلیٰ معیار کے ہسپتال کیوں قائم کریں؟ ان کے بچے یورپ اور امریکا کے معاشرے میں پروان چڑھ رہے ہیں تو وہ پاکستان کو ایک مثالی معاشرہ کیوں بنائیں؟
ابھی زینب کو دفنایا بھی نہیں تھا کہ فیصل آباد میں طالب علم فیضان کو وحشیوں نے جنسی درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا اور ایک اور دل دوز خبر سامنے آ گئی۔
ہم نے کراچی میں 48 مردہ عورتوں سے بدفعلی کا کیس بھی دیکھا۔ 27 سالہ سرگودھا کا رہائشی کراچی میں گورکن تھا اور مردہ جوان عورتوں کی قبریں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر کھودتا اور اسے وحشیانہ ہوس کا نشانہ بناتا۔
ہمارے قانون میں اس کےلیے کوئی سزا تک موجود نہیں تھی، اس کیس کا بعد میں کیا بنا، کوئی نہیں جانتا۔
ہم نے بھکر میں بچوں کی لاشیں قبروں سے نکال کر کھانے والوں کے چہرے بھی دیکھے، جس کے لیے بھی ہمارے قانون میں کوئی سزا موجود نہیں تھی، ان آدم خوروں کا بعد میں کیا ہوا، یہ معلوم نہیں۔
دن دیہاڑے ماڈل ٹاؤن میں درجنوں افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، جس میں چودہ ہلا ہو گئے، یہ پولیس گردی لائیو ٹی وی چینلز پر گھنٹوں چلتی رہی لیکن سالوں بعد بھی کیس میں قاتلوں کا تعین نہیں ہوسکا۔
ہم نے اپنے آنکھوں سے ستر ہزار شہریوں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا لیکن آج بھی پاکستان میں کوئی متفقہ بیانیہ نہیں کہ ہمارا دشمن کون ہے؟
یہ طاقت آپ کے ہاتھ میں ہے کہ ان لٹیرے، ڈاکوؤں، چوروں اور مجرمانہ حد تک بے حس سیاستدانوں کو نکال باہر کریں لیکن آپ اور میں بھی وحشی درندوں سے کم نہیں، جب ان ہی نام نہاد رکھوالوں کو ووٹ دے کر اسمبلی تک پہنچاتے ہیں، اپنے بچوں کے قاتلوں کو اپنی شانوں پر بٹھا کر اسمبلیوں میں بٹھاتے ہیں جہاں لوٹ کھسوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
آئیے ایک عہد کریں! آنے والے انتخابات میں پارٹیوں اور منشوروں سے بالاتر سوچیں اور ایسے نمائندے منتخب کریں جو واقعی قومی خدمت گار ہوں اور جو آپ سمجھتے ہیں کہ اسمبلی میں پہنچ کر ایسے قانون سازی کرے گا کہ پھر کوئی کسی زینب کے ساتھ زیادتی کا سوچ بھی نہ سکے۔
یہ جہد مسلسل ہے اور ہمیں مسلسل اس پر آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس قحط رجال میں اگر آپ چُپ ہیں تو آپ بھی ظالم اور قاتل سے کم نہیں۔