خودمختاری اور انسانی فطرت
عفاف اظہر
یہاں مغرب کے بچوں میں، اگر انہیں گھر کا ماحول مناسب ملا ہو تو ایک چیز جسے احساس کہا جاتا ہے، کمال پر نظر آتی ہے۔جوں ہی ذرا نوجوانی کی عمر پر آتے ہیں تو یہ فوری طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا چاہتے ہیں اور اپنی سبھی ذمہ داریاں خود اٹھانا چاہتے ہیں۔
اور دیکھا جائے تو یہی ایک انسان کی بنیادی فطرت ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے پرندوں کے بچے ذرا پر نکالیں، تو فوری اُڑنے کے لیے پر مارنے لگتے ہیں۔ بطخ کا بچہ بھی ذرا سا ہوش آتے ہی پانی کی طرف بھاگنے لگتا ہے اور ایسے ہی شیر کا بچہ بھی اپنے شکار پر خود جھپٹنا چاہتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی ایک جان دار ہے اور انسان کا بچہ بھی فطری طور پر خود مختار ہونا چاہتا ہے۔
پرندے اپنے بچوں کے ساتھ کچھ اڑانیں ساتھ بھرتے اور پھر انہیں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ پہلے پہل وہ تیز ہوا میں ڈگمگاتے ہیں، تنہا ہوتے ہی کھلی فضا میں ڈولنے لگتے ہیں، مگر پھر جلد ہی خود بہ خود ان کی اڑان میں ایک خود اعتمادی آ جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی شیرنی شکار کرتے ہوئے اپنے بچوں کو ساتھ رکھتی ہے، ان کے سامنے شکار کرتی ہے، آہستہ آہستہ ان پر سب کچھ ڈال کر خود پیچھے ہو کر صرف نظر رکھتی ہے اور پھر وہی بچے خود سے شکار پر جھپٹنے لگتے ہیں۔ مغرب نے بھی ہوبہ ہو یہی اصول اپنا رکھا ہے۔ والدین بچوں کے ساتھ پیار ضرورکرتے ہیں، مگر اتنا لاڈ نہیں کرتے کہ ان کی فطرت ہی مسخ ہو جائے۔
یہاں بچوں کو آہستہ آہستہ خود اعتمادی کی طرف دھکیلا جاتا ہے۔ بچپن سے نوجوانی میں قدم رکھیں تو ایک ایک کر کے ان پر ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں۔ ان کی سبھی خواہشات پوری نہیں کی جاتیں بلکہ انہیں خود اپنی خواہشات پورا کرنے کا راستہ بتایا جاتا ہے۔ بچے والدین سے جیب خرچ نہیں مانگتے بلکہ خود پارٹ ٹائم نوکری کر کے اپنے خرچ کے پیسے پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس بچوں کو جوان ہونے تک والدین پالتے ہیں، حتیٰ کہ اپنے اخراجات پر ان کی شادیاں تک کرتے اور ان کے بعد کے خرچے بھی خود ڈھوتے نظر آتے ہیں اور یوں ایک طرح کے ’ناجائز لاڈ پیار‘ سے ان کی فطرت بگاڑ دیتے ہیں۔ سہارے تھما کر خود اعتمادی چھین لیتے ہیں، ان کی ہر ضرورت خود پوری کر کے ان کے ہر پیدا ہوتے احساس کو جامد کر دیتے ہیں۔ والدین یہ تو سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض بچوں کی تمام ضرورتیں پوری کرنا ہے اور ان کی سب سے بڑی ضرورت جو کہ انہیں ایک خود اعتماد انسان بنانا ہے، اسے کلی طور پر پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں صدیوں سے آج تک کہیں بھی کوئی ایسا نظام تک وجود میں نہیں آ سکا، جو بچوں میں تعلیمی سطح سے لے کر معاشرتی سطحوں تک خود اعتمادی پیدا کرنے کے تمام تر مراحل کو ایک عملی شکل دیتا نظر آئے۔ کیوں کہ یہاں کے انسان نے آج تک خود اپنی ہی فطرت کو نہیں سمجھا۔ تو یہ اپنی بنیادی ضرورتوں کو کیا خاک پورا کر پائے گا۔