اوپر والے مالے کی حرکات و برکات
انیس فاروقی
برصغیر پاک و ہند میں شرفا ہمیشہ کوٹھے پر جا کر ہی تہذیب و تسکین پاتے تھے، یعنی جتنا اونچا مالا یا منزل، اتنا ہی اونچا گناہ کا درجہ۔ جدید دور میں کوٹھا تو اتر کر چھوٹے چھوٹے بنگلوں کوٹھیوں میں آگیا ۔۔۔ لیکن خفیہ ایجنسیوں نے گناہ کے اس کاروبار کو تیسری چوتھی منزل تک پہنچا دیا، جیسا کہ اب ہم کے علم میں یہ کھلم کھلا آچکا ہے کہ پاکستان میں دو ہی اقسام کی ذاتیں مقیم ہیں ایک وردی والی اور دوسری اچھوت، یہ اچھوت اقلیت اب اکثریت بن چکی ہے ۔
اگر پاکستان کی آبادی بیس کروڑ بھی مان لی جائے تو قریب اس اقلیت کی تعداد کم از کم پندرہ سے اٹھارہ کروڑ ہے ۔۔۔دنیا بھر کے خفیہ ادارے مجرموں پر تشدد کے نفسیاتی و جسمانی تشدد کے مختلف طریقے اپناتے آئے ہیں، جس کی ہمیشہ ہی انسانی حقوق کی تنظیموں نے مخالفت کی ہے ۔۔۔۔ سی آئی اے کو ہی لے لیجئے کہ اس نے گوانتاناموبے اور عراق کے قید خانوں میں کیا کیا مظالم ڈھائے ہیں ۔۔۔ تو اگر پاکستان کے ادارے اگر تشدد کر لیتے ہیں تو کیا مضائقہ ۔۔۔ہاں فرق صرف یہ ہے کہ دنیا بھر میں نفسیاتی تشدد ایک جیسا ہوتا ہے بس جسمانی تشدد کا فرق اتنا ہے کہ بیرون ممالک تشددانسانی جسم کے اوپری حصوں تک محدود رکھا جاتا ہے اور ہمارے ادارے اس کا آغاز نچلے حصوں سے کرتے ہیں ۔
باریش، با وضو، مکہ مکرمہ کے عطر سے مہکے ہوئے بانمازی اہلکار اسلام کی روح میں ڈوبے ، جذبہء شریعت میں سرشار پولیس ، ایف آئی اے ، آئی ایس آئی والوں کو نہ جانے مردوں کے جسم کے زیریں علاقوں میں کیا لطف آتا ہے ۔۔۔ یا شاید جنسی تشدد کے لئے انہوں نے الگ سے ایک مسیحی جلاد رکھا ہوا ہے ۔۔۔جو پہلے دن ہی اچھوت قوم کی تواضع کرتا ہے جب تک کہ صاحب نماز سے فارغ ہو جائیں اور پھر درس تبلیغ کا آغاز کرکے اس مجرم کی ذہنی اصلاح مشفقانہ انداز میں فرمائیں۔
انسانی تاریخ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس طرح کے تشدد کی کہیں مثال نہیں ملتی ۔۔۔بڑے سے بڑے سیاسی رہنما ہوں یا کوئی عام کارکن، یا گلی کوچے کی صفائی کرنے والا ایک غریب جمعدار ، اس شرعی پاکستانی سزا کا سب کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ اس بدفعلی کی ویڈیو بنا کر رکھ لی جاتی ہے، تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ایک رات کی دلہن کی واپسی پھر چاہے عامر لیاقت کی طرح ہو یا ٹھاکر کی ٹھوکر کھائے ہوئے فاروق ستار کے جیسے، ان کی زندگی میں ایک عجیب تبدیلی راتوں رات واقع ہو جاتی ہےاور جب جب ان کے اندرذرا سی بغاوت سر اٹھانے لگتی ہے ۔ اس وقت ان کے سیل فون پر کوئی ایک ویڈیو بھیج کر بیتے دنوں کی سہانی یادیں تازہ کرا دیتا ہے ۔
جلاد اگر بیمار ہو یا چھٹی پر ہو تو اس نیک کام کے لئے دو مجرموں کو ایک دوسرے کے ساتھ بدفعلی کی تبلیغ کی جاتی ہے اور اسلامی جمہوریت میں چارو ں طرف سے گونجنے والی اذان سنتے ہیں۔ ہمارے اہلکار قبلہ رو ہو کر نماز کی نیت باندھ لیتے ہیں اور سلام پھیرتے ہی اپنی مغفرت اور جنت کی طلب کی گڑ گڑا کر دعا مانگتے ہیں۔ اس کے بعد جائے نماز سمیٹ کر اپنے اوپر پھونکیں مارتے ہوئے۔ داڑھی مبارک پر ہاتھ پھیر کر عریاں لٹکے ہوئے جانور نما انسان کی جانب رجوع کرتے ہیں اور پھر اپنی ضروری انسانی حاجات کی تسکین کے فعل کا آغاز کرتے ہیں۔
پاکستان کو رجعت پسند ، انتہا پسند اور اسلامی دائیں بازو کی ریاست سمجھنے والے مغربی ممالک کو ہماری اس روشن خیالی اور جدیدیت کا علم ہی نہیں، ہم تو مغربی بے راہ روی سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ادارے یہ کام کسی تہہ خانے یا زیرزمین سرنگوں میں نہیں کرتے بلکہ وہ ایف آئی اے کے چوتھے مالے پرببانگ دہل ریاست کے سینے پر مونگ دل کر پاکستان کے آئین و قانون ، بنیادی انسانی حقوق کے منشور ، قران و سنت کے تمام قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیر کر کرتے ہیں۔ شاید ان کے نزدیک اوپر والے سے جتنا نزدیک ہوں گے، اوپر والے مالے پر کی جانے والی حرکات کی برکات بھی اس قدر زیادہ ہوں گی۔