ریاست کے اندر ریاست
حمزہ سلیم
پاکستان میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔۔۔ایک طرف سے عدالت کو ننگی گالیاں پڑ رہی ہیں تو دوسری طرف سے توہین عدالت کے نوٹسز دھڑا دھڑ ہورہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ سے ہوش مندانہ آوازیں آئیں ہیں ۔۔۔سینیٹ کے جانے والے چئیرمین رضا ربانی اور تعلیم یافتہ و مہذب سنیٹر فرحت اللہ بابر نے شاندار آخری تقریر کی ہے ۔۔۔ان دونوں تقریروں میں پاکستان کے مسائل کو کھل کر بیان کیا گیا ہے۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں اپنی آخری تقریر کرتے ہوئے دردمندانہ لہجے میں کہ پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست بنتی جا رہی ہے اور ان دونوں ریاستوں میں کشمکش ہے، پارلیمنٹ نے ڈی فیکٹو ریاست ختم نہ کی تو ٹکراؤ ہوگا۔سینیٹ میں اپنے الوداعی خطاب میں فرحت اللہ بابر کا گزشتہ روز کہنا تھا کہ اداروں کے درمیان اختیارات کے دائرہ کار میں پارلیمان ناکام رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب احتساب کمیٹی میں سب کے احتساب کی بات آئی، توان کی جماعت بھی پیچھے ہٹ گئی،اس طرح کی حرکتوں کی وجہ سے پارلیمان کی خود مختاری ختم ہو رہی ہے۔۔۔فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ افسوس ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی ختم ہو رہی ہے، اور دوسرے ادارے پارلیمان پر شب خون مار رہے ہیں۔۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو سیاست زدہ کرنے اور سیاست کو عدلیہ زدہ کرنے سے پارلیمان کو خطرہ ہے، تشویش ہوتی ہے جب چیف جسٹس قسم کھا کر کہیں کہ ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔
اپنی آخری تقریر کے دوران فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ بدقستی یہ ہے کہ ججز آئین اور قانون کے ذریعے نہیں توہین عدالت قانون سے عدلیہ کا وقار بلند کر رہے ہیں ،تشویش ہوتی ہے اور خوف آتا ہے جب ججز اپنے وقار کی بلندی کے لئے توہین عدالت کے قوانین کا سہارا لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رحمت بابا کہتا ہے کہ آئین پارلیمان سے بالاتر ہے، آئین وہ نہیں جو لکھا ہوا ہے، آئین وہ ہے جو وہ کہیں گے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ججز آئین و قانون لکھنے کے بجائے فیصلوں میں اشعار کا حوالہ دیتے ہیں۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جب وہ 2018 کے لیے انتخابی مہم کو دیکھتے ہیں تو خوف آتا ہے،کہیں دو ہزار آٹھارہ کا سال عدلیہ پر ریفرنڈم کا سال ثابت نہ ہو، پارلیمان کو وارنگ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس دن کے شر سے بچو، کہیں 2018 کا الیکشن کا محور عدلیہ کا ریفرنڈم نہ بن جائے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے اندر ریاست بنتی جا رہی ہے ، ان میں کشمکش ہے، فیض آباد پر دھرنا ہوا تو حکومت کو ہتھیار ڈالنے پڑے، حکومت کے سرینڈر کے معاہدے پر ڈیفیکٹو ریاست نے دستخط کئے ۔۔۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارلیمنٹ ڈی فیکٹو ریاست ختم نہیں کرے گی تو ٹکراؤ کی جانب جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈی فیکٹو ریاست احتساب سے ماورا ہے، صرف ڈی جیورے ریاست کا احتساب ہوتا ہے۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم، صوبوں کو اختیارات کی منتقلی رول بیک کی جارہی ہے، ڈیولوشن کو رول بیک کیا تو ایسا نہ ہو چھوٹے صوبے اٹھ کھڑےہوں اور یہ نہ کہہ دیں کہ قومی اسمبلی میں پنجاب کے برابر کرو، یہی برابری مشرقی پاکستان سے پنجاب نے مانگی تھی۔فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ خطرات منڈلارہے ہیں، پاکستان کو بچانے کی ذمہ داری صرف پارلیمان پر ہے۔اب جانے والے چئیرمین سینیٹ رضا ربانی کی باتیں سنتے ہیں ۔۔۔۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ اسمبلی کے اسپیکر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونا بدقسمتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو پارلیمانی ریکارڈ منگوایا وہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت سپریم کورٹ کے پہلے سے طے شدہ اصول کے منافی ہے،عدم مداخلت کے اس فیصلے کو تمام عدلیہ کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔خیال رہے کہ گزشتہ دنوں پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو عدالتی احکامات کے باوجود رکن اسمبلی بلدیو کمار کو حلف نہ لینے دینے پر توہین عدالت کا نوٹس بھیجا تھا۔عدلیہ سے متعلق یہ پالیسی بیان چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ایوان بالا سے خطاب کے دوران دیا۔ انہوں نے کہا کہ آئینی اداروں میں مزید خلیج پیدا کیے بغیر وہ چیئرمین سینیٹ کے عہدے سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں ، گزشتہ چند روز کے واقعات نے ان کے ضمیر کو جھنجوڑا کر رکھ دیا ہے۔رضا ربانی نے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں ذوالفقار بھٹو کیس میں طے کرچکی کہ پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کرے گی، چیف جسٹس سپریم کورٹ ماضی میں آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت یہ طے کر چکے ہیں لہٰذا عدم مداخلت کے اس فیصلے کو تمام عدلیہ کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔رضا ربانی نے کہا کہ کسی اسمبلی کے اسپیکر کو توہین عدالت نوٹس جاری کرنا بدقسمتی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے پارلیمنٹ کی کارروائی کا جو ریکارڈ منگوایا گیا ہے وہ طے شدہ اصول کے منافی ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں، اس معاملے پر چیف جسٹس سے ملاقات کرتا لیکن وقت کی کمی کے باعث ایسا نہ کرسکا۔رضا ربانی نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کا دفتر ایسے عدالتی معاملات کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، امید ہےکہ نیا چیئرمین سینیٹ اس اصول کو آگے لے کر چلے گا۔فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی نے شاندار اور پر مغز تقریریں کی ،دونوں عظیم اور بے مثال سیاستدانوں اور پارلیمنٹرینز نے وہ باتیں کھل کر بیان کی جس پر دوسرے سیاستدان بات کرنے سے خوف کھاتے ہیں ۔۔فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی کا انداز بیان اس لئے باکمال تھا کہ دونوں لائبریری کا استعمال کرتے ہیں۔
تمام آئینی ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ پارلیمنٹ کی اندر کی کاروائی کو آئینی تحفظ حاصل ہے، پارلیمنٹ کے اندر جو بھی کاروائی ہو اس پر توہین عدالت کا قانون لاگو نہیں ہوتا ،لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں عدالتیں اس پر بھی توہین عدالت کا نوٹسز لے رہی ہیں ۔۔۔سیاستدان جمہوریت اور پارلیمنٹ کومضبوط و مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے تمام معاملات پارلیمنٹ میں ہی حل کرنے چاہیئے ۔۔۔بدقسمتی ملاحظہ کیجیئے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے،انہوں نے دونوں کی تقریروں پر ردعمل دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ ان دونوں حظرات کی زاتی رائے تھی ،ان کی زاتی رائے کو پیپلزپارٹی کی پالیسی نہ سمجھا جائے ۔۔۔آئینی ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کا چیف جسٹس بادشاہ یا شہنشاہ نہیں ہوتا ۔۔۔کہنے کا شاید یہ مقصد ہے کہ عدالت کو ہر ایشو پر نہیں لپکنا چاہیئے ۔۔۔دوسری طرف سیاستدانوں کی بھی زمہ داری ہے کہ وہ جج کے فیصلے پر ضرور تنقید کریں ،لیکن ججوں کو ننگی ننگی گالیاں دینے سے پر ہیز کریں ۔۔۔دانیال عزیز ،طلال چوہدری ،نہال ہاشمی نے توہین عدالت کی ہے تو خادم حسین رضوی نے خوفناک حد تک ججوں کو گندی گندی گالیاں دیں ہیں ،ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا ؟یہ وہ چیزیں ہیں جن پر بحث ہونی چاہیئے ۔۔۔۔جب ججوں کی ججمنٹ نہیں بلکہ کمنٹس پر میڈیا میں پٹیاں چلیں گی ،بریکنگ نیوز بنیں گی تو معذرت کے ساتھ سوالات تو اٹھیں گے اور یہی سوالات فرحت اللہ بابر اور رضاربانی نے اٹھائے ۔۔۔۔ن لیگ کی تو پالیسی ہی یہی ہے کہ وہ ججوں کے ریمارکس کو الیکشن میں ریفرنڈم کی طرح استعمال کرے ۔۔۔۔اسی لئے عدالت کی پچ پر وہ گیم کھیل رہے ہیں ۔۔۔لیکن تمام اداروں کو ان حساس ایشوز پر ڈرنا چاہیئے۔
جج کے لئے بہترین بات یہ ہے کہ وہ خاموش رہے اور اس کا قلم بولتا رہے۔ یہ جو نواز شریف ،مریم نواز باتیں کررہے ہیں یہ تو ایک سیاسی لائحہ عمل ہے ،اس پر جج کو قسم اٹھانے کی کیا ضرورت ہے ؟جب ہر روز توہین عدالت کے حوالے سے نوٹسز لئے جائیں گے ،تو کشیدگی بڑھے گی ۔۔۔ٹھیک ہے سیاستدان گندی زبان کا استعمال کرتے ہیں ،لیکن کیا عدالت اور جج کے لئے ضروری نہیں کہ اس کے پاس صبر ہو ،خاموشی ہو ،اور وہ طاقت کو صبر کے ساتھ استعمال کرے ۔۔۔اس سے عدالت اور جج کا رعب ،دبدبہ بڑھے گا ۔۔۔۔جج کے وقار میں اضافہ ہوگا ۔۔۔فرحت اللہ بابر پاکستان کے وہ واحد سنیٹر ہیں جو ان چھ سالوں میں لاپتہ افراد کے حوالے سے سینیٹ میں بولتے رہے ہیں ،اداروں کو ہمیشہ نصیحت کرتے رہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ میں رہین ۔۔سیاستدانوں کو مشورہ دیتے رہے ہیں کہ وہ اپنے معاملات پارلیمنٹ میں حل کریں ۔۔۔لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پاکستان کے سیاستدان ہمیشہ پھسلتے رہے ہیں ۔۔۔بھٹو کو شاندار موقع ملا تھا ،لیکن اس نے بھی کمپرو مائز کیا۔
نوازشریف کئی مرتبہ دو تہائی اکثریت لیکر آئے لیکن کمپرو مائز کیا۔ نواز شریف جس تیزی سے احتساب عدالت جاتے ہیں ،کاش وہ پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں بھی تواتر سے جاتے ۔۔۔جب میثاق جمہوریت جیسا ڈاکومنٹ مزاق جمہوریت بن جائے گا ،جب سیاستدان ایک دوسرے کو گستاخ،غدار اور کافر کہیں گے ،اس وقت تک پاکستان میں ڈی فیکٹو ریاست حاوی رہے گی ۔۔۔جب پارلیمنٹ خود شفاف احتساب کا ادارہ نہیں بنائے گی ،باسٹھ ترسٹھ کو ایک دوسرے کے خلاف سیاستدان خود استعمال کریں گے تو ڈی جورے ریاست اسی طرح زلیل و خوار رہے گی ۔۔۔سیاستدانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ شارٹ ٹرم فائدوں کے لئے بک جاتے ہیں ۔۔لیکن جب مشکل میں آتے ہیں تو پھر عقل مندانہ اور ہوش مندانہ گفتگو کرتے ہیں ،نواز شریف ،زرداری اور عمران خان کی مثالیں اس ھوالے سے ہمارے سامنے ہیں ۔۔۔۔فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی انتہائی زہین اور تعلیم یافتہ پارلیمنٹرین ہیں ،لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ انہیں دوبارہ سینیٹ کا ٹکت نہیں دیا گیا ۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کو دیانتدار ،ایماندار ،بے باک سیاستدانوں کی ضرورت نہیں ۔۔۔اس لئے تو راجہ پرویز اشرف نے فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے سینیٹ میں کہا ،یہ ان کی زاتی رائے ہو سکتی ہے ،لیکن یہ باتیں پارٹی پالیسی نہیں ہیں ۔۔۔