ایک ریاست مگر دو متوازی حکومتیں
عبدالغفار بھٹی
دوہرا اقتدار سے مراد ایک ریاست میں ایک ہی وقت میں دو متوازی حکومتوں کا موود ہونا اور چلنا ہے۔ پاکستان میں پچھلے 70 سالوں سے ہی دوہرا اقتدار رہا ہے۔ دونوں سے سبھی واقف ہیں ایک تو فوجی حکومت اور دوسری نام نہاد جمہوری حکومت۔ جمہوری حکومت دراصل سرمایہ داروں کی ہی حکومت ہے۔ ان سرمایہ داروں نے جمہوریت کالبادہ اوڑھ رکھا ہے، جس کی آڑمیں محنت کش طبقے کا استحصال کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ملک و قوم کی محافظ کہلانے والی حکومت ہے، جو کبھی بھی غریب اورمحنت کش طبقے کی محافظ رہی نہ ہے۔
کتنے لوگ گم ہو جاتے ہیں پتا نہیں چلتا کہ آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ فوجی حکومت بس اپنے سرمایے کی محافظ ہے اور اس غلیظ اور گندے سرمایہ دارانہ نظام کا ایک حصہ ہی ہے۔ جرنیلوں نے تو اپنے ہی پروڈکٹس لانچ کر رکھے ہیں جیسے فوجی سیمنٹ اور فوجی فرٹیلائزر وغیرہ۔
وہ ایک جرنیل ہی تھا، جس نے ’’ڈالر جہاد‘‘ شروع کر کے ملک کو دہشت گردی کی آگ میں میں جھونک دیا، جس دوران ہتھیاروں کا زبردست کاروبار کیا گیا۔ سرمایہ داروں نے اربوں ڈالر بنائے اور اور یہ دہندہ آج تک جاری ہے۔ اس میں پاکستان سمیت امریکا، روس اور یورپ سمیت پوری دنیا شامل ہے۔ لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے اور پیسے بنائے جاتے ہیں۔
پہلے سوویت یونین کو توڑنے کے لیے طالبان پیدا کیے گے، جو الٹا بعد میں اپنے ہی بنانے والے مالکوں کی جان کے دشمن بن گے اور آج یہ کرایے پر دستیاب ہیں۔ کہیں بھی دہشت گردی کرنا ہو یہ باآسانی مل جاتے ہیں۔
دوسری طرف فوجی سرمایہ دار نہ صرف اپنا کاروبار چلاتے ہیں، بلکہ ملکی بجٹ کا ایک بڑا حصہ کھا جاتے ہیں۔
ادھر نام نہاد جمہوری حکومت کی کارکردگی فوجی آمروں جیسی دکھائی دیتی ہے۔ آج نواز شریف جس اسٹیبلشمنٹ کا رونا رو رہے ہیں، کل وہ خود اس کے ساتھ کھڑے تھے اور ان کی ایما پر ملک میں جمہوریت کم زور بنا رہے تھے۔ آج وہ دہائی دے رہے ہیں اور ان کے مخالف فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی کا بنایا ہوا کوئی اور گروہ کھڑا ہے۔ اقتدار کی اس کھینچا تانی میں کسی مزدور، کسی غریب اور کسی محنت کش کی زندگی میں کسی بھی بہتری کا کوئی راستہ نکلتا نظر نہیں آتا۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ اقتدار کی اس رسہ کشی میں اصل میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی۔
کامریڈ ٹراٹسکی کہتے ہیں کہ جب یہ دونوں اقتدار والے آپس میں متصادم ہوں تو کوئی معاشرتی بگاڑ نہیں ہو گا لیکن جب محنت کش ان سرمایہ داروں کے خلاف کھڑا ہو گا تو معاشرتی تبدیلی ہو گی اور یہ تب ممکن ہو گا جب ملک میں سوشلسٹ طرز کا انقلاب سر اٹھائے گا۔