کیا شفیق سولنگی، سندھ کا نقیب محسود نہیں؟
خدا ڈنو شاہ
میرا بیٹا بے قصور تھا،جسے جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔ شفیق تو پڑھنے میں بھی کسی سے کم نہیں تھا۔ بارھویں جماعت کا امتحان پاس کر کے پاکستانی فوج میں بھرتی کے لیے کاغذات جمع کروا کے آیا تھا۔ بزرگ عورت وزیراں سولنگی اپنے گالوں سے اشکوں کو پونچتے ہوئے بات کو آگے بڑھا رہی تھی۔
شفیق سولنگی کی شادی کو بھی تین برس مشکل سے ہوئے ہیں۔ دو بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹی دعا بتول دو برس کی ہوگی اور اقراء بتول نے تو شفیق کو مرجانے کے چار مہینے بعد جنم لیا تھا۔ معصوم بچیوں کا ذکر کرتے ہی وزیراں کی آنکھیں برس پڑیں، میرے بیٹے کو بھیڑیا سٹی پولیس گھر سے اٹھا کر لے گئی تھی اور میرے شوہر کو بھی، جوان بیٹے کے ساتھ گرفتار کر کے لے کر گئے تھے۔ یہ کہتے ہیں اس کی آواز گلے میں اٹک جاتی ہے اور دھیمے لہجے میں بولنے کی کوشش کے باوجود الفاظ شفیق کی بزرگ والدہ کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
پھر اشکوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا، جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ شفیق کے والد خان محمد نے وزیراں کے آواز کی گھٹن کو محسوس کرتے بولا مجھے پچاس ہزار کے بدلے میں چھوڑ دیا اور بڑے صوبیدار عبداللہ اعوان اور سپاہی موسو ماچھی نے کہا کل بیس لاکھ دی کر اپنے بیٹے کو لے جانا۔
ورنہ لاش آپ کو مل جائے گی، مجھے یقین تھا کے ظالم پولیس والے شمر کا روپ اختیار کر گئے ہیں اور یہ چوبیس سالہ شفیق کو مار دیں گے کیونکہ میری آنکھوں کے سامنے انہوں نے شفیق کی ایک ٹانگ اور بازو توڑ دیے تھے۔
ایک بزرگ والد نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹے پر اتنا تشدد کیسے برداشت کیا ہوگا، وہ تو میرا اللہ ہی جانتا ہے، لیکن تھوڑا سا اندازہ کریں کے سندھ میں مچے ایک کربلا میں شمر نما پولیس والوں نے جب چوبیس سالہ بیٹے کے اوپر باپ کے سامنے تشدد کیا ہوگا، تو بوڑھے باپ نے یہ مناظر کس طرح دیکھے ہوں گے؟
آخرکار وہی ہوا، جس کا ڈر تھا۔ خان محمد کے پاس بیس لاکھ کا بندوبست نہیں ہوسکا اور ایک گھر کے لیے ایک کربلا بپا ہو گیا۔ ویسے تو شفیق کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا لیکن کچھ گھنٹوں کے بعد مردہ جسم میں کئی گولیاں بھی اتار دی گئیں تھیں اور اس جوان کے قتل کو انکاونٹر کا نام دے دیا گیا تھا۔
لاش بغیر پوسٹ مارٹم کے ورثا کے حوالے کر دی گئی۔ شفیق سولنگی کے جسم میں جہاں جہاں گولیاں اتاری گئیں، وہاں سے خون نکلنے کے بجائے کالے نشانات بن گئے اور چوبیس سالا شفیق کی زندگی کا چراغ بجھ گیا۔ ماں کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ایک بچی باپ کے سائے سے محروم ہو گئی اور دوسری اس وقت ماں کے پیٹ میں تھے، جس سے باپ کا دست شفق اور ماتھے پر بوسہ، دنیا میں آنے سے قبل ہی چھین لیا گیا۔
پولیس کے موسو ماچھی اور صوبیدار عبداللہ اعوان کے اوپر شفیق کے قتل کا مقدمہ تو درج ہوگیا لیکں قاتل اب بھی دن دناتے پھر رہے ہیں۔ پولیس نے اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے چکر میں مقتول کے ورثاء کو نوشہروفیروز میں احتجاج کرنے تک نہیں دیا۔
مقتول کے ورثاء انصاف کی امید لے کر کراچی آئے ہوئے ہیں لیکں یہاں بھی ان کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی، وہ وقت کے کوفہ میں وقت کے یزید کے خلاف سراپاء احتجاج ہیں مگر شاید ان کی آواز شہر کی ٹریفک کے شور میں کھو چکی ہے۔ یہ چیخیں شاید اتنی کم زور ہیں کہ گونگے بہرے حکمرانوں کے کانوں تک نہیں پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ دیتی ہیں۔ کراچی پریس کلب کے سامنے شفیق کے ورثا آج بھی اپنے بیٹے کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبا کر رہے ہیں۔ لاکھوں کی آبادی والے اس شہر میں ہے، کوئی جو ان بے سہارا لوگوں کی مدد کرے؟