چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کا منتظر مضمون
مہناز اختر
جب سے ہوش سنبھالا ہے عدل و انصاف میں تاخیر کے حوالے سے انگریزی کا یہ مقولہ ’’Justice delayed is justice denied‘‘ تواتر کے ساتھ سنتی آئی ہوں، کیونکہ ملک میں انصاف کی فراہمی اور وصولی کے عدالتی معاملات کے دوران مجبوروں کی زندگی کے ماہ و سال بمع مال بذریعہ عدالت نگل لیے جاتے ہیں اس لیے مذکورہ مقولے پر میرا ایمان کبھی متزلزل نہیں ہوا۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مذکورہ الفاظ برطانوی وزیراعظم William E. Gladstone نے سن 1842 میں عوامی خطاب کے دوران ادا کیے تھے جِسے بعد میں مارٹن لوتھر کنگ نے دوران اسیری اپنے خط میں معمولی اضافہ کے ساتھ لکھا تھا اور وہیں سے اس مقولے کو شہرت ملی۔ مارٹن لوتھر کنگ کے الفاظ کچھ یوں ہیں Justice too long delayed is justice denied اور اسی مفہوم پر مبنی ایک اور مماثل جملہ “Delay of Justice, Is Great Injustice ” مغرب میں سترہویں صدی میں دائر کی گئی ایک پٹیشن میں بھی استعمال کیا گیا تھا. اس جملے کی تاریخ سے قطع نظر اس کا مفہوم ان دنوں میرے سامنے نئے معنوں کے ساتھ آیا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ جیسے انصاف کی راہ میں مجرمانہ غفلت پر مبنی تاخیر ناانصافی کے مترادف ہے، ویسے ہی عجلت میں کیے گئے منتخب کیسوں کے فیصلوں میں بھی ناانصافی اور اقرباء پروری کا قوی امکان ہوتا ہے۔
از خود نوٹس اور ماڈل کیس کی پڑنے والی روایت نے میری نظروں میں عدالتی نظام کو مزید مشکوک کردیا ہے۔ اکثر اوقات ازخود نوٹس عوامی دباؤ یا میڈیا کی نشاندہی پر ہی لیے جاتے ہیں اور کبھی کبھی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی کسی ویڈیو یا تصویر کی وجہ سے اندرون پنجاب کی وائرل ہونے والی تصویر (جس میں کچھ افراد غلاظت بھرے راستے پر سے بچتے بچاتے جنازہ لے جارہے تھے) پر لیا جانے والا از خود نوٹس کم از کم میری نظر میں معتبر نہیں کیونکہ شاید مذکورہ گاؤں کے سیوریج سسٹم میں از خود نوٹس کی وجہ سے بہتری آجائے مگر پاکستان کے دوسرے علاقوں میں سیوریج کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ اسی طرح زینب کیس کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھرپور طریقے سے اٹھایا گیا، عوامی رد عمل کی وجہ سے اس کیس پر بھرپور توجہ دی گئی اور ریکارڈ مدت میں اس کیس کو صرف ایک زاویہ سے حل کر دیا گیا اور ملزم پر جرم ثابت ہوگیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قصورمیں زینب سے پہلے جن بچوں سے زیادتی کی گئی تھی ان کیسوں کا کیا ہوا اور زیادتی کے کیس میں قصور پولیس کے ہاتھوں مارا جانے والا ملزم مدثّر واقعی مجرم تھا یا پھر وہ اس ملک کے ناقص نظام عدل اور پولیس گردی کی بھینٹ چڑھ گیا اور زینب کے بعد بھی پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کئی کیس رپورٹ ہوئے تھے ان پر میڈیا یا اعلیٰ عدالتوں نے توجہ کیوں نہیں دی ؟ نقیب محسود قتل کیس کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، نقیب محسود کے کیس کا تقابل آپ یاسر شاہ اور انتظار حسین قتل کیس یا دوسرے ماورائے عدالت قتل کیسوں سے کرلیں، تو مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ان بیچاروں کا کیا قصور جن کے مقدمات برسوں سے التواء کا شکار ہیں اور وہ انصاف کے منتظر اور آپ کی توجہ کے طالب ہیں۔
میں محترم جناب چیف جسٹس ثاقب نثار سے کہنا چاہتی ہوں کہ ہسپتالوں کے دورے کرنے سے اس ملک کے نظام عدل میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ آپ کی اولین ذمہ داری اور جواب دہی نظامِ عدل و انصاف سے متعلق ہے تو اگر آپ کوچہ کوچہ قریہ قریہ جاکر عدالتوں اور تھانوں کا دورہ کرلیں تو شاید عدالتی نظام میں کچھ بہتری آجائے۔ آپ جانتے ہیں کے پاکستان میں انصاف کاروباری ذہنیت کے وکیلوں، پیشہ ور گواہوں اور غیر ذمہ دار ججوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔
ملک میں انصاف اور قانون کا دوہرا معیار آپ جیسے معتبر اور بااختیار لوگوں کی توجہ کا طالب ہے مجرم اگر امیر اور بااثر ہو تو پولیس سمیت تمام عدالتی نظام اس کی گرفتاری کے لیے اس کے آگے خوشامدیں کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اگر مجرم یا ملزم بدقسمتی سے غریب ہو تو یہی نظام اس کے ساتھ کیا کچھ کرتا ہے اس سے سب ہی واقف ہیں۔ سرکاری ہسپتال کو بااثر مجرموں کی آرام گاہیں بنا دیا گیا ہے اور جس طرح نہال ہاشمی اور ڈاکٹر شاہد مسعود کے کیسوں میں ملزمان اور جج کے درمیان ہونے والی مکالمہ بازی بریکنگ نیوز کی شکل میں میڈیا پر نشر ہوئی اس سے عدالت کے وقار میں کمی آئی ہے کیونکہ اس رویہ سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ کمرہ عدالت بااختیار افراد کے گھروں کا ڈرائنگ روم ہے۔
ازخود نوٹس کے ذریعے رینڈم کیسوں پر توجہ دینے کے بجائے اگر آپ عوام کی قانونی امداد اور مشاورت کے لیے لیگل ہیلپ لائن جیسے اداروں کے قیام کی طرف توجہ دیں اور پہلے سے تاخیر والتواء کا شکار کیسوں کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کریں تو یہی صحیح معنوں میں ملک و قوم کی خدمت ہوگی۔ یوں عوامی مقامات پر بار بار جلوہ افروز ہونے سے شاید آپ کے شخصی وقار میں اضافہ تو ہو جائے مگر عدلیہ کا وقار کم ہوگا کیونکہ عام افراد اداروں کے وقار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شخصیت پرستی کی طرف جلد راغب ہوجاتے ہیں۔
پاکستان کے عدالتی نظام پر جب سے اشفاق حسین کے بابا رحمتے کے جھلک نظر آنے لگی ہے تب سے میری نگاہ میں پہلے سے مشتبہ پاکستان کا نظام عدل مزید مشکوک ہوگیا ہے۔ ان دنوں میں اسی ذہنی کوفت میں مبتلا ہوں کہ اگر کل کو خدانخوستہ میرے ساتھ کوئی ناانصافی ہوتی ہے اور میرا معاملہ بذریعہ میڈیا اور سوشل میڈیا چیف جسٹس تک نا پہنچ پایا تو کیا مجھے بروقت انصاف مل پائے گا ؟
بہت ممکن ہے کہ ناانصافی کرنے والا شخص یا ادارہ اپنے اثروروسوخ کو بروئے کار لاکر میڈیا کی مدد سے تمام تر واقعات کی گمراہ کن منظر کشی کرکے عوامی رائے کو میرے مخالف کردے اور آپ اس پرچار سے متاثر ہوکر میرے خلاف ’’از خود نوٹس‘‘ لے لیں۔ اسی لیے میرا مطالبہ ہے کہ میرے ازخود نوٹس کے منتظر مضمون کا از خود نوٹس لیا جائے۔