انبیاء، فرشتے اور کافر
تیمور علی طارق
چند ماہ پہلے بائیں بازو کے کچھ دوستوں کے ساتھ ملکی حالات پر گرما گرم بحث ہوئی اور یہ بحث بھی ہمیشہ کی طرح اس جملے پر ختم ہوئی کہ پاکستانی سماج جمود کی حالت میں ہے، سو اس سماجی جمود کے دور میں کوئی بڑی تبدیلی یا انقلابی لہر پیدا نہ ہونا ایک ارتقائی عمل ہے۔ اس جمود کی کیفیت میں ہمیں مایوس ہونے کی بجاے اپنی مقداری اور میعاری قوت کو بڑھانا چاہئیے . ابھی اس مقالمے کو چند دن بھی نہ گزرے ہوں گے کہ سوشل میڈیا پر ایک نیا نام سامنے آیا، منظور، منظور پشتین، جن کا واحد تعارف یہ تھا کہ وہ ایک علاقائی اسٹوڈنٹ جماعت کے لیڈر ہیں، جو چند قبائل اور آئی ڈی پی ز کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے بنائی گئی ہے یہ جماعت قبائلیوں کے حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی ہے۔
سوویت افغان جنگ میں جو انعامات کی سیلابی بارشیں امریکا اور سعودیہ کی طرف سے پورے پاکستان پر ہوئیں۔ ان کا سب سے گہرا اور دیرپا اثر قبائلی علاقوں پر ہوا۔ جس طرح قبائلیوں کا بار بار استحصال باوردی خداؤں اور امریکا نے مل کر کیا، اس کی مثال تو بلوے سے پہلے کے دور میں بھی نہیں ملتی۔ اس وحشیانہ جنگ نے ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف میں پختون سماج کی بنیادیں بری طرح سے ہلا کر رکھ دیں۔
پہلے جو علاقہ سرحدی گاندھی کے نام سے جانا جاتا تھا اب اس کی پہچان باوردی خداؤں کی بدولت طالبان اور القاعدہ ٹہری۔ شاید یہی وہ دکھ اور المیہ تھا جس کو کم کرنے کے لیے منظور پشتین نے محسود تحفظ موومنٹ کا آغاز کیا۔ اس تحریک نے محسود قبیلے کو ایک نیا حوصلہ اور اعتماد دیا. اس نوجوان نے محسود قبیلے کی جبری گمشدگیوں، ماوراۓ عدالت قتل اور فوجی چوکیوں کی پرتشدد اذیت کے خلاف مہم شروع کی. جب یہ نوجوان اپنا دکھ لے کر دوسرے قبائل اور پشتون عوام کے پاس پہنچا تو اس نے محسوس کیا کے دوسروں کا دکھ اس کے قبیلے کے دکھ سے بھی بڑا ہے. تو باچا خان کے اس سپوت نے اپنی محبت کا دائرہ بڑھا کر پوری پشتون قوم کے دکھوں کو گلے سے لگا لیا۔
غریب عوام کی محبت سے سرشار منظور پشتیں نے عوامی دکھوں کا نوحہ لکھا اور وقت کے یزید کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ اس نے ہر جلسے میں عام لوگوں کا دکھ بیان کیا۔ مزدور کا دکھ، کسان کا دکھ اورغریب کا دکھ مل کر ایک انسانیت کا دکھ بن کر سامنے آیا، اس کی سچائی کے ساتھ لوگ جڑتے گئے۔ قطرے سے دریا اور دریا سے سمندر بن گیا۔ بہت لمبے عرصے بعد خیبر پختونخوا اور فاٹا کی غریب عوام کو اپنا سچا لیڈر ملا جو ان سب پیسے ہوے لوگوں کی آواز بن کر جمود شدہ سیاست میں ابھرا۔
کیا جبری گمشدگیاں اور ماوراۓ عدالت قتل صرف پشتونوں کا مسلہ ہے یا پھر پورے پاکستان کا ؟ کیا سندھ ، بلوچستان، اور پنجاب میں طالبان گردی یا فوج گردی نہیں ہوتی؟ یقیناﹰ یہ تو پورے پاکستان کا مسئلہ ہے، پر نہیں اگر عالمی افق پر ایک نظر ڈالی جاہے تو یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی اپنے بنیادی حقوق تعلیم، روزگار، بھوک، صحت، گھر، زبان یا شناخت کے لیے آواز بلند کرتا ہے تو وہ دہشت گردی یا فوج گردی کا شکار کیوں ہو جاتا ہے۔ تجربے نے منظور پشتین کو وقت کی کڑوی سچائی سے آگاہ کر دیا ہے۔ پشاور کے جلسے میں اس نے کہا کہ وہ ہر اس شخص اور ادارے کے خلاف ہے جو عام آدمی کا استحصال کرتا ہے۔ یہ علاقائی تحریک اب ایک ایسے موڑ پر موجود ہے جو یا تو اسے تاریخ کے کوڑے دان میں دفنا دی جائےگی یا پھر یہ ابھر کر پاکستان میں ایک روشن خیال اور استحصال سے پاک سماج کی بنیاد رکھ دی گی۔
اب اصل امتحان ان انقلابیوں کا شروع ہوتا ہے جو ستر سال سے عوامی تحریک کا انتظار کر رہے ہیں اور اس کو منطقی انجام تک پہچاننے کے لیے بے قرار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تاریخ میں یہ موقع سن ستر کی طرح ضائع کر دیا جائے گا یا ایک نئے سماج کا قیام ہوگا۔ آج تاریخ نے پاکستان کے انقلابیوں کو ایک اور موقع دیا ہے کہ وہ اس عوامی تحریک کو وقت کے جھوٹے انبیاء اور ابلیسوں کے خلاف جنگ جتوا کر وقت کا کفر توڑ سکتے ہیں یا نہیں۔