پی ٹی ایم ، انسانیت اور جھنڈا

فیاض الدین، چارسدہ

خان عبدالغفار خان بابا اکثر کہتے تھے کہ اپنے دوست اور دشمن کو پہچانیں، اپنے فائدے اور نقصان کو پہچانیں۔ ایک اور موقع پر کہا، ’’یہ جو مذہب کے نام پر تمہارے دلوں میں نفرت ڈالتے ہیں یہ دراصل خدا کے بندے نہیں ہیں بلکہ شیطان کے نمائندے ہیں۔‘‘

ہمارے ہاں اگر کسی آواز کو خاموش کرانا مقصود ہو تو دو چیزوں کا سہارا لیا جاتا ہے، ایک ہے مذہب اور دوسرا وطن یعنی ملک۔ وہ بات الگ ہے کہ غداری کے فتوے داغنے والے خود کتنے مذہب پر عمل کر رہے ہیں اور ان کی اس مٹی سے محبت کتنی ہے لیکن جب جب بھی مخالف کا منہ بند کرنا ہو تو یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ فلاں غدار ہے، فلاں گستاخ ہے۔ یہ سارا چکر آج کا نہیں ہے بلکہ جب سے یہ ملک بنا ہے تبھی سے ہوتا آ رہا ہے۔ وطنیت اور مذہب کو ہر دفعہ غلط انداز میں پیش کیا گیا۔

سوات میں پی ٹی ایم جلسے میں جو مائیں،بہنیں، بیٹیاں اور بوڑھے اپنی دکھ بھری کہانیاں لے کر آئے تھے، مجھے نہیں لگتا کہ کوئی سینے میں دل رکھتا ہو اور وہ رویا نہ ہو، وہ بچیاں جب انصاف مانگ رہی تھی، وہ عورتیں جو اپنے شوہروں کا پوچھ رہی تھی وہ بوڑھے جو منت سماجت کر رہے تھے کہ ہمارے بچوں کو رہا کرو یا کم از کم اتنا تو بتا دیں کہ زندہ ہیں یا اس دنیامیں نہیں ہیں۔ یقین جانیں ایک کربلا جیسا ماحول تھا، سب کو رلا دیا۔
میڈیا پر میں کیا بات کروں جو سیاسی جلسوں میں ہر رقص کو بریکنگ نیوز بنا دیتے ہیں جو رقص کی ہر ادا کو بڑے زور وشور سے پیش کرتے ہیں، اس کربلا کی طرف توجہ نہیں دیتے، آخر کیا وجہ ہے؟ کیا یہ انسان نہیں یا ان کو اپنا نہیں سمجھا جا رہا؟ گدھا کرنٹ سے مرگیا یہ بریکینگ نیوز بن سکتی ہے لیکن اس قوم کے لوگ ماتم کر رہے ہوں اپنا غم بتانے آئے ہوں وہ ہمیں کچھ بھی نہیں لگتا؟
یقین کیجئے ایسا لگتا ہے کہ ہمارا رویہ “لایئومن بالاآخر” کی تفسیر بن گئی ہوں۔

پشتون تحریک کو میڈیا کور نہیں مکمل بلیک آؤٹ کرتا رہا ہے، ہاں البتہ پی ٹی ایم کے خلاف کچھ ملے تو اسے بریکینگ نیوز بنا کر اور دو تین فتوے لگا کر پیش کیا جاتا ہے، اور پروپیگنڈا بھی ایسے کیا جاتا ہے کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے۔

ایک بندہ شرارت کے طور پر پاکستانی پرچم لے کر جلسہ میں گیا، اب یہ ڈرامہ دیکھیں یہ قوم تو 14 اگست اور 23 مارچ کے علاوہ جھنڈیں نہیں لہراتی، ان کی محبت تو چند دنوں تک محدود ہے اور معلوم نہیں انہیں کس نے یہ کہا ہے کہ صرف جھنڈا لہرانا حب الوطنی ہے، یہ ایسا ہی یے جیسے “پی کے” فلم میں عامر خان نے بھگوان کو چہرے پر لگا کر ڈرامہ کیا کہ اب مجھے کوئی مار نہیں سکتا اگر مارے گا تو گستاخ کہلائے گا کیونکہ وہ ساتھ میں بھگوان کے سٹیکر کو بھی نقصان دے گا۔

دوسری بات یہ ہے چونکہ سب کو معلوم ہے کہ یہ لوگ ریاست سے ناراض ہیں، وہ ماتم کر رہے ہیں، غم میں ہیں، کالے جھنڈے لئے ماتم کر رہے ہیں اور ایسی حرکت بیچ میں ہو تو یہ مناسب نہیں ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہوتا تب بھی صحیح ہوتا مگر میڈیا چونکہ اس تحریک کے منفی پوائنٹ کی جستجو میں ہوتی ہے کہ کب یہ لوگ غلطی کربیٹھیں تاکہ ہم حب الوطنی کا ورد شروع کریں،یہاں ترجیح کو بھی دیکھیں ایک انسان جو دکھی ہے جو غمگین ہے جو اس ملک کا باسی ہے اس کو میڈیا دیکھتا تک نہیں ہے لیکن اس جھنڈے کے مسئلے کو ڈھال بنا کر پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ دیکھیں یہ غدار ہیں ایجنٹ ہیں۔

دیکھیں کس طرح وطنیت کو بنیاد بنا کر دوسروں کو ایجنٹ اور منافق کہا جارہا ہے، میری آج اپنے دوستوں سے بات ہورہی تھی میں نے کہا مجھے جنت جانے کے لیے پاکستانی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہے پاسپورٹ میرا ایمان اور نیک اعمال ہونگے، کیا ترکی، لیبیا، سعودی اور ملیشیاء کے باسی مسلم نہیں ہیں؟ صرف پاکستانی مسلم جنت جائے گا؟

ملک سے محبت اپنی جگہ پر، میں پاکستان سے نفرت نہیں کرتا لیکن جب اس پاکستانیت کے فلسفے کو بنیاد بنا کر انسانیت سے عاری ہونے کی کوشش کی جاتی ہے تب بہت دکھ ہوتا ہے، کیوں ہمیں کپڑے کے دو ٹکڑیں نظر آتے ہیں ان کو نہ لہرانا ہمیں غدار وایجنٹ بنا دیتا ہے جبکہ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا درد نہ دکھانا وہ شیر نہیں کرنا اسے بریکینگ نیوز نہ بنانا ہمیں “محب وطن” بناتا ہے۔

تنہائی میں جا کر سوچیں میری اخروی نجات جھنڈے لہرانے میں ہے یا لاچاروں کا دکھ درد بانٹنے میں ،یا ان کے دکھ میں شریک ہونے میں۔ یہ سوال اپنے دل سے کریں۔ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ اللہ پاک سے محبت دراصل اس کی مخلوق سے محبت ہے۔
میرا یہ ماننا ہے اس ملک کی عوام کی خدمت کریں انہیں پیارومحبت دیں انہیں خوشیاں دیں انہیں انسان سمجھیں، یقین جانیں پاکستان خود ہی “زندہ باد” اور “تابندہ باد” ہوگا، باہر دنیا کی نظر میں پاکستان کی عزت بڑھے گی کہ یہ دیکھیں اس پرچم والے اپنے عوام کا خیال رکھتے ہیں انہیں حقوق دیتے ہیں لیکن جب آپ جھنڈے کو ڈھال بنا کر مظلوموں کی آواز کو دبا دیں گے تو یوم آخرت آپ کا گریباں بھی پکڑا جائے گا کیونکہ یہاں تم خود کو اور عوام کو دھوکہ دے سکتے ہو لیکن اللہ پاک کو دھوکہ نہیں سکتے ہو۔

المیہ یہ ہے کہ اشرافیہ اپنا رول اس طرح ادا کر رہی ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے بچوں کی کاپیوں،کتابوں اور پرچہ بورڈ پر جرنیلوں کی تصویریں بنائی جاتی ہے تاکہ ابھی سے انہیں سوچنے سمجھنے سے محروم کیا جائے اور یہ بچے ابھی سے فوج کی تقدس اور عزت کو سمجھیں اور یہ بات ان کے ذہن میں بیٹھ جائے کہ یہ فوج پاکستانی فوج نہیں ہے بلکہ یہ خدائی فوج ہے یہ جھنڈا خدائی جھنڈا ہے اور یہ ملک مدینہ ثانی ہے، یہاں آواز اٹھانا جرم ہے اور جو بھی آواز اٹھاتا ہے جو بھی مظلوموں کیساتھ کھڑا ہوتا ہے وہی غدار وطن ہے اور جو ظلم وجبر کرتے ہیں مظلوم کی آواز کو دباتے ہیں، جو دستور کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں، وہی اصل میں اس ملک کے ہیروز ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں اتنے تعلیم یافتہ لوگ جو آئین بناتے ہیں قانون پر لیکچرز دیتے ہیں المیہ یہ ہے ان کی سوچ بھی ایسی بن گئی ہے یا بنا دی گئی ہے کہ دستور کے مطابق حقوق مانگنا گناہ ہے اور دستور کو ٹشو کی طرح استعمال کرنے والے ہی اصلی محب وطن ہیں۔ اللہ پاک ہمارے حال پر رحم کرے۔ آمین