ہم اہلِ حرف کو بھی مصلحت خاموش رکھے
انیس فاروقی
آجکل پاکستان ایک بار پھر جلسوں کی زد میں ہے ، میڈیا کی کمائی یا پٹائی کے دن شروع ہوگئے ہیں، نجی ٹی وی تو دور کی بات اپنا سرکاری پی ٹی وی بھی اب تو پالتو عسکری ٹیلیوژن کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے ۔ رینٹ اے کراوڈ والوں اور تمبو قناتوں ، لاوڈ اسپکیرز والوں کی چاندی ہو رہی ہے۔
کہیں میاں دے نعرے وجن گے، کہیں بھٹو میں زرداری ملاوٹ زدہ نغمے اور کہیں تبدیلی آئی رے ، چل رہے ہیں ۔ پشتون تحفظ موومنٹ اور ہزارہ وال کے دلوں میں جو غم کے المیہ راگ ہیں انہیں کوئی نہیں سن رہا، نہ ہی پاکستان کے ایک بڑے حصے میں ساتھی والا ترانہ بجانے کی اجازت ہے۔
ایسے میں کیا خاک جمہوری الیکشن منعقد ہو پائیں گے یا دنیا کو قبول ہوں گے۔ ویسے ایک آئیڈیا ہے ، اس بار الیکشن کے بجائے سیدھا سیدھا ریفرینڈم کروا لیا جائے، اور اس میں دو آپشن دے دئے جائیں کہ پہلا یہ کہ کیا قوم عمران خان کو منتخب کرنا چاہتی ہے یا دوسرا یہ کہ کیا قوم عمران خان کو منتخب کرنا چاہتی ہے ، اب دونوں میں سے جو بھی قوم منتخب کرے وہی مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا جائے ، اللہ اللہ خیر صلہ۔
شہری سندھ میں تو چھ سات کروڑ حبیب جالب والے گدھے بستے ہیں جن کے دلوں سے ایک ہی آپریشن نے چالیس سالہ انقلابی تحریک چلانے والے الطاف حسین کو جرنیلوں نے نکال دیا ہے ، شاید ایسا وہ سمجھتے ہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر وہ اس کام میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں ۔ البتہ اس نام نہاد آپریشن سے ایم کیو ایم کی اندرونی تطہیر ضرور ہو گئی ہے ۔ شکریہ نیشنل ایکشن پلان۔
فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی اپنے اپنے ہمنواوں کے ہمراہ روز کوئی نیا راگ چھیڑتے ہیں اور اُس مینڈیٹ پر رال ٹپکاتے دکھائی دیتے ہیں جو ان کا تھا ہی نہیں، رہی بات مصطفی کمال کی تو ، ایسی ایک مثال آفاق احمد کی صورت میں تاریخ کی کتابوں میں پہلے سے موجود ہے ۔ البتہ پی آئی بی اور بہادر آبادرضاکارانہ طور پر متحدہ کے قائد کی جماعت اور ان کی عوام سے جڑنے کی اداکاری کرتے رہتے ہیں جس میں وہ اب ناکام دکھائی دیتے ہیں، لگتا ہے کہانی میں جلد ہی ان کا مہمان اداکار والا کردار بھی ختم ہونے والا ہے ۔
اُدھر کراچی میں عسکری سہولت کاری کے ذریعے سیاسی میدان طاقت کے زور پر خالی کروانے کے بعد، حاکم علی زرداری کے پوتے ، بلاول زرداری نے موقع غنیمت جانا اور لیاقت آباد سے نزدیک ترین ایک علاقے کو ایک دن کے لئے لیاقت آباد قرار دلوا کر اندرونِ سندھ کے لوگوں کو کراچی کی سیر کروا دی ۔ ہر پانچ سال بعد ان غریبوں کا نصیب جاگتا ہے اس کا سہرا تو یقینی طور پر پی پی پی کے سر ہی جاتا ہے ۔
ویسے عزیزم بلاول کو مشورہ ہے کہ یا تو وہ اپنا اسپیچ رائٹر تبدیل کرلے یا اپنا خاندانی نام طے کرلے ، بھٹو ہے یا زرداری ، یا اپنے ابو سے لاتعلقی کا اعلان کردے، وگرنہ اس کا سیاسی کیریر شروع ہونے سے قبل ہی ٹُھس ہو جانے کے قوی امکانات ہیں۔
انہیں یاد نہیں کہ جب میاں بلاول جب چسنی منہ میں لیا کرتے تھے اس وقت انکے اکابرین، بزرگ، والدہ، والد اور ارد گرد کھڑے تمام چچاوں اور تایاوں نے نائن زیرو کی دہلیز پر دانت نکال نکال کر جئے الطاف انکل کے نعرے لگائے ہیں ۔ ۔ لیکن اس بچے کو کسی نے یہ تاریخ تو بتائی نہیں تھی اس لئے جو کچھ بھی رومن اردو والی تقریر کے پرچے پر لکھا تھا وہی چیخ چیخ کر پڑھ دیا۔ اس میں بچے کا کیا قصور یا ابا زرداری کا بھی کیا قصور ، یہ سب کچھ تو یہ نواز شریف کے بہکائے میں آکر کرتے ہیں نا ، پانی کو ممم کہتے ہیں ۔
انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ساری ہڑ بونگ میں ، ایک عدد بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہزارہ ایکٹیو سٹ جلیلہ حیدر کسی کو دکھائی نہیں دے رہی ہے جو پکار رہی ہے کہ باجوہ آو اور ہمارے تین ہزار بیواوں اور یتیموں کے سوالات کے جواب دو۔۔۔میڈیا اور اہلِ قلم اپنے ضمیر سلائے ، لفافے تھامے ، اپنے پیشے سے بے وفائی کرتے نظر آتے ہیں، لعنت ہے ایسے پیشے پر ۔۔۔ ہم اہلِ حرف کو بھی مصلحت خاموش رکھے۔۔۔تو پھر کس کام کی عالی ہنر کاری ہماری۔
بقول جلیلہ حیدر ” قمر جاوید باجوہ صاحب وردی کے بغیر عام آدمی بن کر ایک بار کوئٹہ آئیں۔ سوچیں وہ کوئٹہ والے ہیں، سوچیں وہ پشتون ہیں، سوچیں وہ بلوچ ہیں۔ میں ان کو اس شہر کی ہر چیک پوسٹ، ہر محلے، ہر گلی کوچے میں رکشے پر لے جاکر دکھاؤں گی یہاں کے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے”، لیکن اُ ن کی یہ آواز پاکستان کے گونگے بہرے میڈیا تک نہیں پہنچ پاتی، وہاں تو بس ایک ہی تبدیلی مسلط کی جا رہی ہے ، باقی سب کی آوزوں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے ۔
ویسے اگر باجوہ صاجب کا دل پسیج جائے اور وہ واقعی ایسا کرنے پر تیار ہو جائیں تو اس میں سینکڑوں لاپتہ مہاجروں اور ماورائے عدالت قتل ہونے والوں کی ماوں سے بھی ایک عدد ملاقات کر لیں تو کوئی حرج نہیں، آخری خبریں آنے تک یہ لوگ بھی آج کے آزاد پاکستان کے ہی شہری ہیں جن کی ایک بڑی رقم سے آپ کی تنخواہیں بھی ادا کی جاتی ہیں۔ وگرنہ جو مزاجِ یار میں آئے ۔۔
بی بی سی، الجزیرہ ، پشتون ٹائمز، متبادل بلاگ ، ٹیگ ٹی وی، اور دیگر بہت سے انسان دوست میڈیا ہاوسز اپنی سی کوشش کرکے اِ ن بے آوازوں کی آواز بننے کی سعی میں مصروفِ کار ہیں ، دنیا تک اِس جبر، ستم و مظالم کی داستانیں پہنچنا شروع ہو رہی ہیں، وہ وقت دور نہیں جب کوئی بڑی نیوز ہیڈلائن بنے گی اور طاقت کے نشے میں چور ، یونیفارم والی سرکار ان سب کے غموں کے مداوا کے لئے ایک عدد فوجی نغمہ آئی ایس پی آر سے جاری کرکے اپنا فرض پورا کرنے کا دھوکا کرے گی، لیکن شاید تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ وردی ہے تیرے باپ کی جاگیر تو نہیں۔۔۔کچھ کر نہیں سکتے تو اتار کیوں نہیں دیتے۔