تحریک انصاف کی تعلیمی ایمرجنسی اور ایمرجنسی وارڈ میں پڑے تعلیمی ادارے کی آخری ہچکیاں

انضمام الحق داواڑ

دو ہزار تیرہ کے انتحابات میں پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی کا جو سیاسی ایجنڈا پیش کیا اس میں صحت اور تعلیم کے مسئلے کو انہوں نے خاص طور پر ہائی لائٹ کیا۔ خیبر پختونخواہ کے عوام نے اسی تبدیلی کے وعدے پر پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دئے۔ خیبر پختونخواہ کی عوام کی بدقسمتی ہی سمجھئے کہ عمران خان نے صوبے پر توجہ دینے کی بجائے مرکز کے ساتھ محاذ سنبھال لیا۔

روایتی سیاق وسباق میں پھنسنے کی بجائے سیدھا مقصد کی بات پہ آتے ہیں۔ تحریک انصاف حکومت نے بس ٹرانزٹ منصوبے کے مد میں جہاں صوبے کو اربوں ڈالر کے قرضوں میں ڈبو دیا تو دوسری طرف اس متنازعہ منصوبے کیلئے تعلیم کے وہ چھ ارب روپے بھی قربان کئے جو اس غریب صوبے کیلئے پہلے ہی کم پڑ رہے تھے۔ پشاور یونیورسٹی محض ایک عام یونیورسٹی نہیں بلکہ صوبے کے تعلیم کا مرکز ہے اور صوبے کے تعلیم کے ڈیپارٹمنٹ کا آدھے سے بھی زیادہ انحصار اس یونیورسٹی اور اس سے متصل میڈیکل کالج و انجنئیرنگ یونیورسٹی پر ہے۔

تازہ اطلاعات کے مطابق پشاور یونیورسٹی کو طالبان کی طرف سے دھمکیاں ملی ہے جس سے خوفزدہ ہوکر طلباء کو ہدایت کی گئی کہ وہ جلد از جلد ہاسٹل کو خالی کریں۔ تاہم اس فیصلے کو بعد میں واپس لیا گیا لیکن اس سے طلباء اور ان کے خاندانوں کا جو نفسیاتی نقصان ہونا تھا وہ ہوگیا۔ مائیں جب بچوں کو تعلیم کیلئے بھیجتی ہیں تو ایسے بلائیں لیتی ہیں جیسے میدان جنگ میں جارہے ہو۔ بچوں کو درجن بھر رشتہ داروں سے سو طرح کے نصیحت ملتے ہیں کہ کھانے کہاں پر کھانا چاہئیے اور اٹھنا بیٹھنا کہاں پہ ہونا چاہئیے۔

تحریک انصاف نے پنجاب گورنمنٹ کو میٹرو بس کے منصوبے پہ شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ میگا پراجیکٹس کسی قوم کی حالت بدلنے کیلئے کافی نہیں جب تک تعلیم، صحت اور سیکورٹی کے نظام کی تصحیح نہ کی جائے۔ تحریک انصاف کا اپنے دعوے کے حق میں سنجیدگی کا پتہ اس سے بھی چلتا ہے کہ کس طرح ایک غریب صوبے کے تعلیمی بجٹ کے چھ ارب روپے کو ایک میگا پراجیکٹ منصوبے میں جھونک دیا۔ پشاور یونیورسٹی کا جو حال ہے دیکھ کر کسی بھی طرح یہ نہیں لگتا کہ یہ صوبے کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے۔ ہر طرف گرد و غبار ہے، صفائی کا انتظام ناقص اور فنڈز کے کمی کی وجہ سے کچرے کو وہاں ہی جلایا جاتا ہے جس کی وجہ سے جگہ جگہ دھواں اٹھتا ہے۔ ہاسٹلز میں ہر وقت پانی کے ختم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، peak hours میں پانی ختم ہوجاتا ہے، گھنٹوں گھنٹوں بجلی غائب رہتی ہے اور اس سب کیلئے فنڈز کی کمی کا بہانہ پیش کیا جاتا ہے جو کہ ہر لحاظ سے ٹھیک ہے۔

ایک طرف سکول کے پرائمری لیول کے چھوٹے چھوٹے بچے سکول سے باہر نکل رہے ہوتے ہیں دوسری طرف حفاظت پر معمور پولیس اہلکار بعض اوقات ہاتھوں میں راکٹ تک کا اسلحہ ہاتھ میں تھمائے بچوں کا خیال رکھ رہے ہوتے ہیں۔ کسی کو خیال نہیں آتا کہ اس کا بچے کے نفسیات پر کیا اثر پڑ رہا ہوگا۔

ایسے غیر یقینی صورتحال میں صوبے کے تعلیم کے ساتھ اس کھلواڑ سے کیا ثابت ہوتا ہے۔ طلباء کو راتوں رات ہاسٹل خالی کرنے اور پھر فیصلہ واپس لینے سے کیا تأثر ملتا ہے۔ فیصلہ تو واپس لیا گیا لیکن کیا اب طلباء توجہ دے کر پڑھائی جاری رکھ سکیں گے؟ کیا ان کے والدین چین کی نیند سو سکیں گے؟ ایسے کئی سوالات ہیں۔

یہ ایک سیاسی مکالمہ نہیں یہ سنجیدہ مسئلہ ہے اور یہ مخض میٹرو، بی آر ٹو یا اورینج ٹرین کی بات نہیں جس میں قوم کے پیسے ڈوب جائیں گے بلکہ قوم کا مستبقل تباہ ہورہا ہے۔ یونیرسٹی کا ایک ماحول ہوا کرتا تھا ہر طرف تازگی ہوتی تھی اپنائیت کا حساس ہوتا تھا۔ اب جب بندہ یونیورسٹی میں داخل ہوجائے تو بیگانگی کا حساس ہوتا ہے۔ یونیورسٹی میں اب وہی تازگی نہیں جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ ہر جگہ پریشانی ہے لوگوں کے چہرے پہ مایوسی صاف دکھائی دیتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر نواز شریف کے ساتھ اپنی ذاتی حساب برابر کرنا چاہتی ہے یا قوم کا لوٹا ہوا پیسہ اس کے پیٹ سے نکالنا چاہتی ہے تو اس کیلئے اور بھی کئی راستے ہیں پشتونخواہ کے تعلیمی اداروں سے پیسے نکالنا اس کا کوئی حل نہیں۔