میں مہاجر ہوں؟
مہناز اختر
میں نے گزشتہ مضمون “تمہیں یاد ہو کہ نا یاد ہو” میں مشرقی پاکستان میں بہاریوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے ایک کہانی تحریر کی تھی. اسی سلسلے میں چند قارئین نے کچھ سوالات میرے ذاتی ان باکس پر مجھے بھیجے. ایک بات جو مجھے سب سے اہم لگی وہ یہ تھی ” مجھے بہاریوں پر ہونے والے ان مظالم کا علم نہیں تھا اور آپ اس کہانی کا حوالہ دیجیے”۔
میں پاکستانی ہوں, میری جائے پیدائش کراچی ہے، میرے والدین بھی پاکستانی ہیں۔ میں ہجرت کرنے والے خاندان کی تیسری نسل سے تعلق رکھتی ہوں اور گزشتہ ہفتے کا مضمون میری نانی کی سرگزشت تھی جسے میں نے لفظوں کا جامہ پہنایا تھا. یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ دھرتی پر پیدا ہونے کے باوجود بھی مجھے مہاجر شناخت کی ضرورت کیوں ہے ؟ اس سوال کا جواب سمجھنے کے لیئے ہمیں MQM کو پس پشت رکھنا ہوگا کیونکہ یہ کہانی تحریک پاکستان اور تقسیم ہند سے شروع ہوتی ہے تب MQM کا کوئی وجود نا تھا۔
پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ ” ہندو اور مسلمان دو مختلف اقوام ہیں کیونکہ یہ دونوں اقوام ہندوستان کی دو بڑی اکثریت ہیں اس لیے آزادی کے بعد سیاسی اور حکومتی معاملات میں ان کے درمیان رسّہ کشی لازمی ہے لہذا مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک ناگزیر ہے جہاں وہ اپنی مرضی سے زندگی گزارسکیں اور اپنے عقائد کے مطابق قانون سازی کرسکیں”۔
واضح رہے کہ بات پہلے مسلمان اکثریتی علاقوں میں صوبائی خود مختاری کی تھی جو بعد ازاں مکمل علیحدگی اور تقسیم پر پہنچ گئی۔ مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد اور گٹھ جوڑکی بدولت آخر کار ہندوستان کا بٹوارہ ہوگیا اور پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ نتیجتاً اس خطے میں پنجاب، سندھ اور بنگال کی سرحدوں سے جدید تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ پاکستان سے ہندو اور دوسری برادریاں ہندوستان کی طرف ہجرت کرگئیں اور ہندوستان سے مسلمان پاکستان کی طرف آگئے۔ تاہم مسلمانوں کی آدھی تعداد ہندوستان میں ہی رہ گئی کیونکہ انہیں اپنی دھرتی سے پیار تھا اور وہ تقسیم کے مذکورہ نظریے پر یقین نہیں رکھتے تھے. انہیں مولانا آزاد کے نظریات پر یقین تھا کہ مہاجرین عنقریب پاکستان میں شناخت کے حوالے سے تعصب کا شکار ہوکر اپنی شناخت کھو بیٹیھں گے۔
لاکھوں نفوس پر مشتمل جدید تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت دو اطراف سے ہوئی تھی. اب ہم اپنی بارہویں جماعت تک کی تاریخ (مطالعہ پاکستان ) اٹھا کر دیکھتے ہیں. ان کتابوں میں زیادہ تر مغربی سرحدوں سے ہونے والی ہجرت کا ذکر ہے جسمیں ہندؤں اور سکھوں کے مظالم کا ذکر بطور خاص کیا جاتا ہے لیکن مشرقی پاکستان میں ہونے والی ہجرت کا ذکر سرے سے موجود ہی نہیں یا پھر انتہائی سرسری طور پر موجود ہے. تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت کی تاریخ سے ناواقفیت کے پیچھے کیا وجوہات ہیں اور پھر بارہویں کے بعد کتنے افراد تاریخ کا مطالعہ جاری رکھتے ہیں؟
مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان بنیادی تنازعے کی شروعات بنگالی زبان کے معاملے سے ہوئی تھی . یوپی اور بہار سے ہجرت کرنے والے ہجرت سے صدیوں پہلے سے اردو کو اپنی زبان کے طور پر استعمال کرتے تھے جسمیں ان علاقوں کی مقامی بولیوں اور سنسکرت کی آمیزش تھی. ادھر مغربی پاکستان میں بھی اردو کو قومی زبان کی حیثیت حاصل تھی. یوپی اور بہار کی اردو زبان کو مقامی طور پر اوَادھی اور بھوج پوری کہا جاتا ہے ( اردو کی مفصل تاریخ آپ کو تاریخی کتب سے حاصل ہوجائے گی). یعنی پاکستانی ہونے کے باوجود بھی غیر بنگالیوں کو مشرقی پاکستان میں زبان اورقومیت کے فرق کی وجہ سے بنگالی تسلیم نہیں کیا گیا حتٰی کہ غیر بنگالیوں کی ان نسلوں کو بھی بہاری کہا گیا جو مشرقی پاکستان میں پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوئے. تب پہلی بار مہاجرین بنگال کی سرزمین پر لسانی اور قومی تعصب کا شکار ہوئے اور رفتہ رفتہ بنگالیوں کی یہ نفرت انتقام میں بدل گئی اور جب پاکستانی جرنیلوں نے بنگالیوں کی نسل تبدیل کرنے کی ٹھان لی تو انتقاماً بنگالیوں نے نسل کشی اور نسل کی تبدیلی کے اس فارمولےکو بہاریوں پر آزمایا۔
بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق پاکستانی افواج کے ہاتھوں تیس لاکھ بنگالیوں کا قتل عام ہوا ( آزاد ذرائع کے مطابق تقریباً تین لاکھ بنگالیوں کی ہلاکتیں ہوئیں) اور تقریباً دو لاکھ خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ردعمل کے طور پر بنگالیوں کے ہاتھوں تقریباً 40,000 غیر بنگالیوں کا قتل عام ہوا اور خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی جبکہ پاکستان حکومت کی جانب سے جاری کردہ وائٹ پیپر کے مطابق غیر بنگالیوں کی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 64,000 ہزار تھی اور عالمی اداروں کے مطابق غیر بنگالیوں کی ہلاکتوں کی تعداد دو لاکھ تھی۔ بہاریوں کی پاکستان میں آبادکاری کے لیئے پاکستانی حکومت نے OIC سے کئی سو ملین ڈالر امداد بھی وصول کی لیکن اسکے باوجود بھی لاکھوں بہاری اب بھی بنگلہ دیش کے کیمپوں میں حکومت, اقوام متحدہ اور ریڈ کراس/ ہلال احمر کے رحم کرم پر زندگی گزار رہے ہیں. کتنی حیرانی کی بات ہے کہ مطالعہ پاکستان سے ان حقائق پر مبنی تاریخ کا یہ صفحہ بھی غائب ہے . یوں نئی نسل کی لاعلمی واجب ہے؟
آج دنیا بھر میں مختلف سانحات کے حوالے سے زبانی تاریخ کو عینی شاہدین کی مدد سے ریکارڈ کرنے کا طریقہ کافی مقبول ہے . ہندوستان میں بھی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی جانب سے تقسیم کے وقت پاکستان سے آنے والوں اور مسلمانوں کے ظلم کا شکار ہونے والے مہاجرین کی تاریخ کو ریکارڈ کیا جارہا ہے کیونکہ آنے والے دو یا تین سالوں میں بیک وقت تقسیم ہند اور بنگہ دیش کی آزادی کی جنگ کے عینی شاہدین کی نسل مکمل طور پر ختم ہوجائے گی .اسکے برعکس پاکستان میں تاریخ محفوظ کرنا تو دور یہاں تاریخ کو مٹا کرمصنوعی تاریخ گھڑی جارہی ہے۔
اب دوسرا سوال یہ ہے کہ مجھ جیسے لوگوں کے لیئے شناخت کب اور کیونکر ایک مسئلہ بنی؟
ہندوستان اور مشرقی پاکستان کے مہاجرین اپنے ساتھ اپنی ہزاروں سالہ پرانی تہذیب اور نظریہ پاکستان لائے تھے نہیں لاسکے تو فقط زمین کا ایک ٹکڑا نہیں لا پائے. جسکی وجہ سے انہیں پاکستان میں “دھرتی کے بیٹے” تسلیم نہیں کیا گیا. آج مجھ سمیت مہاجرین کی پاکستان میں پیدا ہونے والی نسلیں پاکستانی تو ہیں مگر سندھ دھرتی کے بچے نہیں کیونکہ ہمارے آباؤاجداد کی پیدائش سندھ میں نہیں ہوئی تھی اور ہمارے نام کے آگے بھٹو, چانڈیو,جوکھیو, سومرو جیسے سابقے موجود نہیں ہیں . یہ درست ہے کہ موئن جو داڑو ہماری تہذیب نہیں مگر اس حقیقت کو تاریخ بھی نہیں جھٹلاسکتی کہ ہمارے بزرگوں نے اس سرزمین سے ہجرت کی جہاں مہا بھارت کی جنگ لڑی گئی اور گوتم بدھ کو نروان حاصل ہوا یعنی ہم بیک وقت شمالی ہند اور گندھارا کی تہذیبوں کے امین ہیں . حقیقت یہ ہے کہ اگر میں خود کو سندھی تصور کر بھی لوں تو سندھی مجھے سندھی تسلیم نہیں کریں گے. جس طرح بنگال میں پیدا ہونے والے غیر بنگالیوں کو بنگالی تسلیم نہیں کیا گیا تھا بالکل ویسے ہی ماضی میں پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت PPP کے وزیر ذوالفقار مرزا نے بھی مہاجرین کو یہ باور کروادیا کہ انکے “آباؤاجداد بھوکے ننگے تھے اور انہیں پاکستان آنے کی دعوت نہیں دی گئی تھی بلکہ وہ خود بہتر زندگی کی تلاش میں پاکستان آئے تھے”۔
لوگ اکثر مجھ سے دو قومی نظریے (ہندو مسلم تھیوری) کے بارے میں میری رائے دریافت کرتے ہیں تو میرا جواب یہ ہوتا ہے “دو قومی نظریہ سن 1971 میں خلیج بنگال میں غرق ہوگیا تھا اور بقیہ بچا کچا دو قومی نظریہ ذوالفقار مرزا نے سندھ دھرتی میں لاکر دفن کردیا جسکے مزار پر مہاجرین کی اولادیں دیا جلاتی ہیں۔ اس لیے کہ یہی دفن شدہ نظریہ ہمارے آباؤاجداد کی ہجرت کی بنیاد تھی , ہماری شناخت ہے اور مہاجرین کی اولاد ہونے کی حیثیت سے ہم مہاجر ہیں”۔