میں منظور کا سپوٹر کیوں ہوں؟

افضل محسودزئی

دل تھام کر سنیے اور آخر تک سنیے۔ میں نے کبھی گلا شکوہ نہیں کیا اس ریاست سے کہ میرے لیے ایف سی آر کیوں؟ اور پتا ہے، میں نے یہ سب پورے 70سال برداشت کیا۔ میرے آباواجداد سمیت مجھ کو تعلیم سے دور رکھنے کی ذمہ دار کیا یہ ریاست نہیں تھی؟ تھی نا؟ میں نے شکوہ نہیں کیا کیونکہ میں نے یہ سب ناقابل برداشت ہوتے ہوئے بھی برداشت کیا۔

پورے پاکستان کو ووٹ کا حق حاصل ہوتے ہوئے بھی مجھے ووٹ کا حق کب ملا؟ کبھی کوئی منظور نکلا؟ نہیں نا؟ ہم ملکی مفاد کی خاطر سب کچھ برداشت کرتے رہے۔ چھوڑیں ان باتوں کو آگے چلیں۔ کیا ریاست کی طرف سے ظلم صرف اتنا سا تھا؟ نہیں بھائی آگے اوربھی بہت کچھ ہوا۔

پھر پتا ہے کیا ہوا کہ اچانک ہمارے گاؤں میں لمبے لمبے بالوں والے لوگوں کا ہجوم آنے لگا۔ ان میں کچھ اپنے لوگ بھی تھے، لیکن اکثریت علاقائی نہیں تھی اور پتا ہے ان کے پاس بڑی بڑی بندوقیں تھی، جہاد کے نعرے بلند ہونے لگے۔

کچھ دن بعد اچانک لوگوں کی لاشیں ملنا شروع ہو گئیں اور پتا ہے کیسی اور کس حالت میں ملتی؟ اس حالت میں کہ گردن کٹی ہوئی اور اوپر سفید کاغذ پر لکھا ہوا ہوتا ’’جاسوس‘‘۔

کسی بیچارے گھر میں کہرام مچتا لیکن مجال ہے کہ ہمارے منہ سے آہ کی بھی اجازت ہوتی کیونکہ پس پردہ ملکی مفاد کا نظریہ تھا نا بھائی۔ لوگوں کی عزتیں لوٹی گئیں، عورتوں کو زبردستی طلاقیں دلوائی گئی، مجھے خاموش رہنا تھا، سو میں خاموش رہا۔

نجی جیلیں بنائی گئیں۔ لوگوں کو راتوں کو اغواء کیا جانے لگا۔ مرضی سے سزائیں دی جانے لگیں، ہاں یہ لوگ نام ضرور شریعت کا لیتے۔ لوگوں کی مونچھیں منڈوانے لگے، جانوروں پر بٹھا کر بازاروں میں گھمایا جانے لگا۔ شروع میں ان کے پاس اسلحہ کم تھا لیکن آہستہ آہستہ فوج کے پورے بریگیڈ سے اسلحہ صرف دو یا تین بندے چھین کر لے آتے اور پھر مرضی سے جہاں چاہتے بسیں بھرکر لے جاتے۔

پھر آہستہ آہستہ سیٹلڈ ایریا سے لوگوں کی اغواءکاری شروع ہوگئی۔ ارےچھوڑیں یار کیا کیا بتاؤں۔ سب کچھ برداشت کیا۔ کبھی کوئی منظور پیدا نہیں ہوا۔ کیا زیادتی بس یہاں تک تھی؟ نہیں بھائی آگے سنیے۔

پھر اچانک جیٹ طیاروں کی آوازیں سنائی دینے لگیں، شیلنگ ہوتی، لوگ گھر بار چھوڑ کر، نہ کبھی سردی دیکھی نہ گرمی، جان بچانے کے لیے لٹے پٹے کپڑوں میں گھروں سے نکل پڑے۔ پھر ملی مفاد کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے، جی ہاں کیوں کہ معاملہ ملکی مفاد اہم تھا۔ مجھے سیٹلڈ ایریا میں بھی دہشت گرد قرار دیا جانے لگا۔ میرے لیے وہاں بھی نئے گروپس بنائیے جانے لگے۔ مکمل پروٹوکول کے ساتھ صبح آرمی کینٹ سے نکلتے اور جہاں مرضی ہوتی۔کسی کو بھی اغوا کرکے، مخالف گروپ کے ساتھ وابستگی ظاہر کرتے، پیسے پہنچانے کا حکم صادر کیا کرتے اور ساتھ میں دھمکی بھی دیتے کہ اگر اتنے اتنے پہسے نہیں آئے تو پھر خیر نہیں۔کیا زیادتی یہیں تک محدود رہی؟ نہیں بھائی آگے چلیں۔

کئی سال آئی ڈی پیز کی صورت میں تکلیف الگ، ساتھ میں راؤ انوار جیسے سرکاری درندوں کے دہشت گرد بنا کر دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کرانے کی دھمکیاں الگ۔ آہ کیا بتاؤں میرے بھائی۔ یہ سب کچھ برداشت کیا۔ کوئی منظور نہیں اٹھا۔ اور کبھی کوئی نعرہ نہیں لگا۔ سب کچھ ملکی مفاد سمجھ کر برداشت کیا جاتا رہا۔

اب کیا دکھتا ہوں اک دن کہ وہ تمام لوگ جو اس وحشت اور بربریت میں پیش پیش تھے اور جو میرے اور آپ کے دشمن تھے، جنہوں نے معصوم لوگوں کی گردنیں اڑائی تھیں، لوگوں کو اغواء کرکے پیسوں کے لیے قتل کیا تھا، جنہوں نے ہمارے فوجی نوجوانوں کی گردنیں کاٹ کر فٹبال کھیلا تھا، وہ سب ایک قطار میں کھڑے اپنی معافی کے منتظر تھے اور وہ بھی صرف قومی ترانہ پڑھ کر۔
ہائے ربا، دل نے ٹوٹنا ہی تھا نا۔ آپ ہوتے تو آپ کا بھی ٹوٹتا۔ بھائی میرے قسم سے یہ بھی قابل برداشت نہ ہونے کے باوجود برداشت کر لیا۔ دلیل یہ ہے کہ کوئی منظور نہیں اٹھا، کوئی نعرہ نہیں لگا۔

لیکن کیا ظلم بس یہاں تک تھا؟ نہیں بھائی نہیں۔ پتہ چلا کہ اب واپس ان ہی لوگوں کو ہمارے علاقوں میں بسایا جا رہا ہے۔ ہتھیار دیے جا رہے ہیں۔ لوگوں پر شیطان گرہوں کو مسلط کیا جا رہا ہے۔ فوج کی موجودگی میں بھی ان کی متوازی حکومت بننے جارہی ہے۔کیوں بھئی، یہ سب کچھ جو ہم نے لٹایا، اس ملک اور ملکی اداروں کی خاطر سب کچھ داؤ پر کیسے لگا دیا؟ پوری پشتون قوم پر دہشت گردی کا مصنوعی لیبل لگ گیا۔ اب جب ان کی سزا کی باری آئی تو آپ نے ان کو نہ صرف معاف کیا بلکہ الٹا ہیرو بناکر پیش کر دیا۔
بس بہت ہوگیا۔ بس اب اور نہیں۔ بس، تم میرے لیے قابل قدر تھے اور رہو گے اگر اب میری لاج رک لی بھیا۔ تم میرے ہیرو تھے اور رہو گے، اگر تم نے میرے مسئلے اپنے مسئلے سمجھے اور مجھے مزید کسی جنگ میں نہ دھکیلا تو، میں تمہارے قدموں کو چھوموں گا، ورنہ مجھ سے محبت کا تقاضا مت کرنا بھائی.۔ بالکل مت کرنا۔