فلسفوں کا اڑن کھٹولا، پیاسے گوادر کی سیر پر

صادق صبا

چھٹی کے دن خالی بیٹھے بیٹھے ، کتابوں میں سر پٹخنے کے بعد جب میں بور ہوگیا تو میں بوجہ مشاہدہ شہر سے باہر سیر کو نکلا تو ابھی میں ”سیائیں کوہ“ کے قریب تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک بڑے قد کاٹ کا شخص جس کا بہت بڑا سر اور چست جسامت تھا،جو گرد آلود و تھکا ماندہ میری طرف آ نکلا تھا۔نزدیک آنے پہ پتہ چلا کہ یہ فلسفے کا کنگ سقراط جی ہیں۔ مگر اس وقت اور یہاں؟ سلام دعا کا جواب دینے کے بعد فوراً اس نے ایک سوال میری طرف داغ دی کہ پانی کہاں ملے گا؟ میں نے تجسس میں کہا کہ چھوڑو پانی وانی کو کہو بھئی یہاں کیسے آنا ھوا؟

تو سقراط صاحب گویا ہوئے کہ عالم برزخ میں اعلان ہو رہا تھا کہ کچھ روحوں کی خواہش پر اڑن کٹولہ زمین میں جنت ارضی کی سیر کو جارہا ہے مگر یہاں آ کر پتہ چلا جنت دور است،،،، جہنم است جہنم۔۔۔۔
میں نے پھر پوچھا آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟۔۔کہا کہ قبر میں چوہے زیادہ تھے زہر لیا ہے مگر پانی نہیں، کیسے تَر کر لو؟

مزید براں اس نے مجھ پہ طنزیہ جملہ کہا کہ آپ فکر نا کریں۔آپ لوگ اسے بغیر پانی کے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔اور یہ کہنا تھا وہ چل دیا۔

میں بھی ٹہلتا ٹہلتا ”کسانیں ٹانکی “آیا تو دیکھا کہ سینیکل فلسفے کے بادشاہ جناب دیوجانس کبھی ٹوٹے پائپوں، کبھی کوئیں میں جھانک رہے ہیں۔یہ وہی پاگل فلسفی ہے جو دن دھاڑے بازاروں میں چراغ لے کر گھومتا تھا کہ میں انسان کی تلاش میں ھوں، مجھے نہیں مل رہا۔۔یا ایک بھری دعوت میں میزبان کے چہرے پر تھوکا تھا کہ سب چیزیں اچھی ہیں سوائے آپ کے شکل کی تو میں نے سب سے بری جگہ پہ تھوکا ہے۔لیکن آج یہ پسینے میں لت پت آدھا ننگا یہاں کیا ڈھونڈ رہا ہے؟

پوچھنے پہ پتہ چلا کہ یہ بھی بے نظیر گوادر کی سیر کی جال میں پھنس گیاہے بے چارہ۔میرے پوچھنے پہ کہ آپ ابھی کیا تلاش کر رہے ہیں تو بے چارہ گویا ہوا کہ میں پانی ڈھونڈ رہا ہوں۔ بحث بحث میں کسی کو بولا کہ شرم سے ایک گلاس پانی میں ڈوب مرو تو اب وہ بے شرمی کا پتلا ایک گلاس پانی مانگ رہا ہے اور میں سرگرداں و آوارہ اسی گوہر نایاب کی تلاش میں ہوں۔مروا دیا یار اس بحث و مباحثہ کی خبط نے۔۔۔۔اس نے کانوں کو ہاتھ میں لیا ہوا تھا کہ میں چل دیا۔۔۔۔

ابھی میں نے کسانیں ٹانکی کی زیارت کرنے کے بعد گوادر کی راہ لی تھی کہ مجھے ”نلینٹ“ کے قریب سکندر اعظم مل گئے بھئ وہی سکندر مقدونیہ والا جو دنیا فتح کرنے نکلا تھا۔

جناب آپ کیسے؟ میں نے پوچھا۔اپنے استاد ارسطو کے ساتھ آیا تھا۔تقریباً یہ بھی میری فوج کی طرح کہیں پہ بے ھوش پڑا ہے۔کہا تھا بابا مت جانا میں ہو کر آیا ہوں۔۔اس منہوس سرزمین سے جس میں پانی ہے اور نہ انسان لیکن ارسطو صاحب نا مانے ۔ شکر ہے آپ لوگوں نے گوادر کا نام سکندر آباد نہیں رکھا ورنہ آپ لوگ سیاستدانوں کی نحوست مجھ پہ ہی توپتے کہ اس وجہ سے یہ شہر نہیں سدھرتا۔۔اور ایک بات اور یہ سیاستدان آپکو کیونکر پانی دینگے جبکہ انکی سیاست کا محور ہی پانی دو بجلی دو پر ہے۔اور آپ سا احمق عوام دنیا میں نہیں ہے، اگر میرے سلطنت میں ہوتا میں تو والّلہ ان سب کا گردن مارتا کیونکہ ستر سال سے ایک ہی کیسٹ پر، ایک ہی دھن پہ آپ شکار ہورہے ہو۔

سکندر کی مایوسانہ باتیں جب مجھے راس نا آئیں تو میں چل دیا۔اور جاتے جاتے گوادر کے نزدیک اناکسی مینس ملے جو وجد میں ناچ رہے تھے۔میں سمجھا بندہ صوفی ہے مگر جلد ہی میں نیچرل فلسفہ کی اس مردِ قلندر کو پہچان گیا اسکی آنکھیں بند، کہہ رہا تھا کہ میں نے کہا تھا نا دنیا ہوا سے بنی ہے۔یہاں دیکھوں جدھر دیکھوگے میری نظریے کی تائید ملے گی۔پانی کی پائپوں اور ٹنکیوں میں بھی فقط۔۔۔ہوا۔۔۔۔

میں نے جلد ہی اس وجد میں کہوے صوفی کو خیرباد کہا اور آگے روانہ ہوا تو مجھے ایک پہاڑی کہ پاس فلسفہ کا جدِ امجد مل گئے مطلب تھیلیس جو عالم افسردگی میں ریڈیوں پر” ڈھونڈوگے مجھے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ھم“ سن رہے تھے

میں یونان کے فلسفی اول کو بلاتاخیر پہچان گیا تبھی واجہ فرمانے لگے کہ آپ لوگوں سے مجھے شکایت ہے کہ آپ لوگوں نے میری تھیوری کو تباہ کیا۔ کل آپ اپنے بچوں کو کیا پڑھاؤگے کہ ایک تھیلیس نام کا پاگل فلسفی تھا اس نے کہا دنیا پانی سے بنی ہے مگر کیا کروگے پانی کا کہاں سے لاؤگے ایک اندیکھی چیز۔۔۔۔کیونکر آپکے بچے باور کرینگے کہ پانی نام کا ایک چیز تھا۔۔۔ وہ بڑبڑا رہا تھا کہ میں چل دیا اور کوہ باطل کے کنارے پہنچا۔

کوہ باتیل کے کنارے پہنچ کر میں بہت غضبناک ہوا کیونکہ مجھے باتیل کی آخری کنارے پر نیرو ملے وہی نیرو جس نے پورا کا پورا روم جلا ڈالا اور خود پہاڑ پہ بیٹھا بانسری بجاتا رہا۔میں نے ڈائیرکٹ ہی پوچھا ظالم، لفنگے خونخوار آپ ان لوگوں کے ساتھ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ ھمارے شہر کو جلانے آئے ہو؟؟؟؟

تو اس شیطان صفت انسان نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور مجھ سے مخاطب ہوا کہ اس شہر کو کیا جلانا اسے گرمی اور بنجرپن خود جلائےگی، میں آیا تھا شہر جلانے لیکن صبح سے ان سیاسی شعبدے بازوں کی شعبدے بازی دیکھ رہا ہوں ۔۔ تو میں نے سوچھا نیرو جی یہاں آپ سے بڑے شیطان اور ظالم ہیں کیوں اپنا نام خراب کرتے ھو۔۔