پُرانے مہمان واپس آگئے
صہیب حسن
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ اسے ضرورت کے وقت ہی لوگ یاد آتے ہیں، اور وہ اپنا کام مکمّل کروانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے، پھر چاہے اسے اپنی انا ہی وقتی طور پہ کیوں نہ چھوڑنی پڑے۔ اور ہمارے معاشرے کے تو کچھ لوگ افسوس کے ساتھ حلال و حرام کی تمیز بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں، اور طاقت کے نشے میں اس قدر دُھت ہیں بغیر یہ سوچے سمجھے کے یہ آن، بآن، شان سب نے ایک روز سپردِ خاک ہونا ہے۔ ظاہر ہے ان کے لئے ان کا کام زیادہ ضروری ہے۔
لہٰذا الیکشن جیسے جیسے قریب آتے گئے شہر میں چہل پہل بڑھتی گئی، مختلف علاقوں میں جلسے منعقد کیے گئے اور ہر جماعت اپنے سیاسی پاور شو کا مظاہرہ کرنے لگی۔ انہی جلسوں میں عوام کے مسائل بھی پیش ہوئے، مسائل کی وجوہات پر بھی تفسیلی گفتگو ہوئی اور بلاخر اس کا حل بھی بتا دیا گیا۔ بڑے بڑے وعدے بھی کیے گئے اور ہماری بیچاری عوام ان وعدوں پہ ایمان لا کے بیٹھ گئی جس طرح پچھلے 70 سال سے ہر سیاستدان کے دھوکے میں آجاتی ہے۔
ہر جلسے میں ایک بات مشترکہ تھی وہ یہ کہ ہر سیاستدان کا یہ دعویٰ تھا کہ ان مسائل کا حل صرف اس کی پارٹی اور وزیروں کے پاس ہے، صرف اس کی پارٹی کی پالیسی ہی اس ملک کو بحران سے نکال سکتی ہے، گویا اسی کے پاس وہ چراغ ہے کہ جس کی بدولت وہ ایک لمحے میں ملک کو ترقی کی راہ پہ گامزن کر دے گا، لہذا ہر جلسے میں عوام کو خواب دکھائے جاتے وہی خواب جن کی یہ عوام عادی ہوگئی تھی یا وہ خواب جس کے بارے میں اس عوام کو پتہ تھا کے یہ محض دیکھنے کی حد تک ہی محدود ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کے یہ عوام ان حکمرانوں کی اس دھوکے بازی کو بھانپ کیوں نہیں پاتی ہے، یا بس یہ قومیت کی پٹی آنکھوں پہ باندھے یہی سمجھتے ہیں کے جو لیڈر ان کی قوم سے ہے وہی مخلص ہے، یقیناً اس سوچ کو بھی مثبت قرار نہیں دیا جاسکتا۔
خیر، اسی رونق کی سی فضا میں ہر جماعت گھر گھر جاتی اپنا نظریہ بیچتی، اور ووٹ کی “بھیک” مانگتی، اور لوگوں کے دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کرتی پھر چاہے انہیں گلی کی مرمّت کروانی ہو، یا سڑک پکی کروانی ہو، انصاف کا اصول ہو یا غریب کی التجا، ایک “انگوٹھے” کے لئے یہ ضمیر فروش کیا کیا نہ کرتے۔ اسی فضا میں الیکشن ہوجاتا، جو جیت جاتا وہ عوام کا مشکور ہوتا، اپنے کیے ہوئے وعدوں کو ایک بار مزید دوہراتا وہی وعدے جو آنے والے وقتوں میں وعدہِ بےوفا سے زیادہ نہ تھے۔
حلف اٹھاتے ہی یہ وزیر عوام سے اس طرح کٹ جاتے ہیں کہ پھر کیا غریب، کیا فقیر، کیا مفلس، کیا مسکین، کسی پہ ان کی نظرِ کرم نہ پڑتی۔ 5 سالوں میں اس عوام کی نہ چیخ و پکار کا کوئی اثر ہوتا، نہ غریبوں کی آہوں کا، نہ فقراء کی سسکیوں کا اثر ہوتا، نہ مظلوم کی پکار سے ان کے کانوں پہ جوں رینگتی، نہ ظلم و بربریت سے ان کے دل لرزتے، نہ قتل و غارت گری سے ان کی روح تڑپتی بس طاقت کی شراب میں یہ نام نہاد “نمائندے” اس قدر لطف اندوز ہوتے کے عوام کا ہوش ہی نہ رہتا۔ محض جھوٹے وعدے، دلاسے، تھپکیاں دے کے عوام کو خوش کردیتے۔ اور جب انہیں ان کے ماضی میں کیے ہوئے “دعوے” یاد دلائے جاتے تو ایک رٹا رٹایا جملہ آتا کہ “ملک ابھی نازک دور سے گزر رہا ہے حکومتِ وقت سر توڑ کوشش کر رہی ہے، جلد انقلابی نتائج عوام کے سامنے آئیں گے۔”
لہذا اسی بدحواسی کی فضا میں 5 سال گزر جاتے ہیں اور عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا، واپس چناؤ کا وقت قریب آنے لگتا ہے، اور دوبارہ “پُرانے مہمان واپس آنے لگتے ہیں” ووٹ کے لیے یہ مہمان ایک بار پھر گھروں کا رخ کرتے ہیں، واپس کچی سڑکیں پکّی ہونے لگتی ہیں، واپس گلیاں بننے لگتی ہیں، واپس خواب دکھائی جاتے ہیں، اور واپس مسائل کا حل بتایا جاتا ہے۔ شاید ہر 5 سال بعد محلّے میں انہی مہمانوں کو دیکھ کے کسی نے بولا ہے،
غریب کی تھالی میں پلاؤ آگیا
لگتا ہے شہر میں چناؤ آگیا
واپس سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، اور واپس ہماری عوام ایک پلیٹ بریانی پہ اور کبھی 5000 روپے پہ اس ملک کی قسمت اور عظمت ان لٹیروں، ڈکیتوں، وڈیروں کے حوالے کر دیتی ہے۔
شاید وقت آگیا ہے کہ ہم پر جو ووٹ فرض کیا گیا ہے اسے قومیت کی نہیں بلکے عقل و شعور کی بنیاد پہ استعمال کیا جائے، “انگوٹھا” لگاتے وقت یہ یاد نہ رکھا جائے کے کس نے سڑک پکّی کروائی بلکے یہ یاد رکھا جائے کہ کس نے اسی نظریے پہ کام کیا جس نظریے سے یہ ملک معرضِ وجود آیا، یہ یاد رکھا جائے کہ کون آنے والی نسلوں کو حقیقی تور پہ بنائیگا، کہ کون اس ملک کی بنیادیں مضبوط کرے گا۔ اگر ہم نے یہ سب سوچ کے اپنے ووٹ کا استعمال شروع کردیا تو شاید یہ “پورانے مہمان” واپس دروازوں پہ آنا بند کر دیں۔