حکمران کے کان کھینچیئے، سلمان درانی

سلمان درانی

پاک بھارت لڑائی کو ایک صحتمند مقابلے میں بھی بدلا جاسکتا تھا۔ جیسے کہ غیر مستحکم معیشت کے مسئلے کو دونوں فریقوں میں سے کون سب سے پہلے حل کرسکتا ہے۔ یا jobless growth کے عددی مسئلے کا حل دونوں میں سے کس کے پاس ہے۔ میرے خیال میں تو یہ مسائل ہمیشہ ہی رہنے ہیں اور ہمارے بارڈر پر رونقیں بھی ہمیشہ ہی بحال رہنی ہیں، جیسے دونوں ممالک کے موقع پرستوں نے یہ معاعدہ کر لیا ہو کہ جب الیکشن آئے، کچھ اتاشیوں کو شہر کے اندر اور باقیوں کو بارڈر کی کشیدگی میں دھکیل دو، الیکشن بخیرو عافیت گزر جائے گا۔ بھارت میں یہ ڈرامہ براہ راست ٹیلی کاسٹ ہورہا ہے۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں اتاشیوں کی بس پر حملے کے بعد سے اب تک کئی واقعات دیکھنے میں آئے جن کے مشاہدے سے آپ اور میں با آسانی ماجرہ سمجھ سکتے ہیں۔ حملے میں جیش محمد نامی عالمی دہشتگرد تنظیم نے ذمہ داری قبول کی، ہمیں اس تنظیم کی بنیادیں پاکستان میں ملتی ہیں، اور یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ اس جیسی تنظیموں کی پشت پر بیٹھ کر ہم نے دنیا میں بدنامی کے علاوہ کچھ بھی نہیں کمایا۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تحقیقات کی بار بار پیشکش اور دوستی کا ہات بڑھانے میں بظاہر کوئی بد نیتی نہیں دیکھی گئی. جنگ کی باتیں تو کیا، اس جانب سے اس بار اس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ نوے کے بعد کی نسل نے پہلی بار دیکھا ہے۔ اس سے پہلے مشرف کے دور میں جو کوششیں ہوئیں ان کے بارے میں سُنا ہے، خود مشاہدہ نہیں کیا۔

بھارتی میڈیااور ریاست کے حالات کا بیان بھی کمال عکس پیش کررہا ہے. یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ اس نے وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے سارے عزائم عوام کے سامنے کھول کے رکھ دیئے. بات تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کوبرا نامی ایک تحقیقاتی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں بھارتی میڈیا کو ننگا کرکے رکھ دیا ہے، سب ظاہر ہوگیا ہے کہ کس طرح پیسے لے کر عوام کی ذہن سازی کا کام بخوبی اننجام دیا جاتا ہے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارتی عوام نے اب وزیراعظم مودی کا گریبان اس بات پر پکڑ لیا ہے کہ فوجیوں کی لاشوں پر سیاست کی بجائے ان کے مسائل پر جوابدہ ہوں۔یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ مجھے ایسا صرف سوشل میڈیاپر تبصرہ کرتے بھارتی صارفین کی رائے سن اور پڑھ کر لگتا ہے، یہ سوال بہرحال برقرار ہے کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والا وہ اکثریتی بھارتی بھی ایسا سوچنے کا استحقاق رکھتا ہے؟ میرا نہیں خیال. آپ کیا سمجھتے ہیں؟ اپنی رائے سے آگاہ ضرور کیجیئے گا!!

میرے مطابق پروپیگنڈا ترتیب ہی اسی طبقے کے لیئے جاتا ہے۔ یہی لوگ اصل میں ٹی وی پر جنگ کی باتیں کرنے والے اینکرز کے غصب کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ بھارت میں مدھیا پردیش کے مختلف دیہاتوں میں ٹماٹر اگانے والے کسانوں کو جب پاکستان ٹماٹر بھیجنے سے روک دیا گیا تو اس کو ٹی وی پر حب الوطنی کا زاویہ دے کر رپورٹ کررہا تھا، آج ان کسانوں کے حالات کا کسی نے پتہ لیا ہے کہ اتنے بڑے نقصان کے بوجھ تلے وہ کس حال میں جی رہے ہونگے؟

اس بائیکاٹ کی خبر کے دو ہی دن بعد بھارتی چینل موبائیل نیوز نے منڈی میں ہر جانب بکھرے پیازوں کی کہانی چلائی. اینکر فرمارہے تھے کہ مودی صاحب تو یہ منظر دیکھ کر خوش ہورہے ہونگے کہ ان کے ملک کی پیداوار کمال رکھتی ہے، مگر اس منظر کو لے کر کسان خوش نہیں ہے. کسانوں کا کہنا تھا کہ ہزاروں روپے لگا کر ہم نے فصل اگائی، اب نا ہی ہمیں یہ پاکستان بھیجنے دیئے جارہے ہیں اور نا ہی ہم سے کوئی پانچ روپے فی کلو بھی کوئی خرید رہا ہے۔ جنگی جنون پر آمادہ کرنے پر مامور میڈیا کبھی اس پر رپورٹ نا کرے، یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ اس نے مودی اور میڈیا کے گٹھ جوڑ کو جو کہ عوام کے حق میں بالکل نہیں ہے، کو ایکسپوژ کرکے رکھ دیا ہے۔

یہ وقت ہے خطے کے ممالک کے عوام کو سمجھنا ہوگا کہ ان کے اصل مسائل کیا ہیں اور ان کا دھیان کس جانب لگایا جارہا ہے. جس جانب دھیان لگایا جارہا ہے، بس وہی پروپیگنڈا ہے اور ہمیں اس جانب نہیں جانا۔ دو ملکوں کی جنگ ہو یا سیاستدانوں کی آپسی لڑائی، یہ سبھی ہمارے حقوق سلب کرنے کے بھلے بہانے ہیں. اپنے اپنے حکمران کے کان کھینچیئے اور مسائل پر جواب طلبی کیجیئے، کوئی آئیں بائیں شائیں نہیں۔