‘‘Since 1996’’
وقاص احمد
دو ہزار آٹھ میں اس پر دوسری بار انوسٹمنٹ شروع ہوئی۔ کہتے ہیں دنیا بھر کی افواج میں زخمی یا معذور اور ناکارہ گھوڑے کو گولی مار دی جاتی ہے۔ لیکن فوجی روایات کے برخلاف یہاں ایک ایسے لنگڑے گھوڑے کو اصطبل سے باہر نکالا گیا، جس پر 3 ستاروں والا ایک جرنیل اور 4 ستاروں والا ایک صدر محنت کر کے مایوس ہوچکے تھے۔ پی پی پی کے دور حکومت میں ایک معروف تجزیہ نگار نے اپنے پروگرام میں انکشاف کیا کہ پی پی پی تو قابل قبول کبھی نہیں تھی لیکن ن لیگ کی اپوزیشن میں گرج برس نے اصطیبلشمنٹ کو کافی پریشان کر رکھا ہے۔ اسی لیے ایک نئے گھوڑے پر انوسٹمنٹ کی جارہی ہے۔ پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری دور میں ریس میں دوڑانے کے لیے کوئی گھوڑا موجود نہیں (آمریت کے دور میں تو یہ کام خچروں سے بھی چلا لیا جاتا ہے)۔ کچھ غور خوض کے بعد اطیبلشمنٹ کے ایک 3 ستاروں والے سائیس نے تجویز پیش کی کہ ایک گھوڑا نظر میں ہے، کمزور ہے، لاغر ٹانگیں ہیں، اکھڑ بھی ہے اور سیکھنے سکھانے کی صلاحیت سے بالکل بے بہرہ ہے مگر اس کو اگر مصنوعی ٹانگیں لگا کر تھوڑی پبلسٹی کی جائے تو سپانسرز بھی مل جائیں گے اور جیت کے امکانات بھی ہیں۔
پہلا ٹیسٹ ٹرائل لاہور کا جلسہ تھا۔ “سلم ڈاگ ملینیئر” کی فلم کے مصداق، وہ گھوڑا راتوں رات پاپولر ہو گیا۔ ایک اچھے ٹرینر کے طرح 3 ستاروں والے سائیس نے پس پردہ میڈیا میں اس کی اتنی پبلسٹی کروائی کہ بقول ایک کالم نگار ’’قوم پر وجد طاری ہوگیا اور حال پڑنے لگے‘‘۔ ایک نئی بد مست قوم، ایک نئی نسل پیدا ہوئی جو اپنے آپ کو یوتھ کہتی ہے اور پیار سے اسے یوتھیا پکارا جاتا ہے۔
میڈیا کی پبلسٹی کے لیے وہی طریقہ کار استعمال کیا گیا، جو آج کل غیر معروف چائنا برانڈ کی سستی اور غیر معیاری اشیاء اور ادویات کو ٹی وی پر لمبے لمبے اشتہارات کی مدد سے بیچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک 10-15 منٹ کا اشتہار ہوتا ہے اور وہ گھنٹوں دہرایا جاتا ہے، اس دہرانے کی وجہ سے ناظر مجبوراً دو تین دفعہ اسے دیکھ لیتا ہے، پھر اسے بتایا جاتا ہے کہ پہلے کال کرنے والے 500 کسٹمرز کے لیے ایک کے ساتھ ایک پراڈکٹ فری ہے اور ساتھ میں اس چیز کی اتنی تعریف دہرائی جاتی ہے کہ ناظر کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت محدود یا بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ اسی فارمولے پر اصطیبلشمنٹ نے اپنا گھوڑا مارکیٹ میں لانچ کیا۔ 2013 کے انتخابات سے پہلے اس “نئی فخریہ پیشکش” کی الیکٹرانک میڈیا میں اس حد تک پبلسٹی کی گئی کہ رہے اللہ کا نام۔ مگر چونکہ وہ پبلسٹی زمینی حقائق سے لگاؤ نہیں کھاتی تھی اس لیے بیرونی غیر جانبدار سرویز کے مطابق ن لیگ واضع اکثریتی پارٹی تھی لیکن ٹی وی اشتہار بازی مہم کے مطابق پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت لے رہی تھی۔ ’’پراڈکٹ‘‘ کو مذید چار چاند لگانے کے لیے اصطبل والوں نے “Since 1996” کا سٹکر بھی گھوڑے کی پونچھل کے ساتھ لٹکا دیا کہ ہماری الٹرا ماڈرن ایلیٹ کے ہاں آج کل یہ فیشن ہے (عام آدمی کی زبان میں اسے classical taste کہا جاتا ہے)۔
چاہے آئس کریم بیچنے والا ہو، پلاؤ بریانی بیچنے والا ہو، جینز کی پینٹ کا برینڈ ہو، مردوں کے کوٹ پینٹ بیچنے والے ہوں یہاں تک کہ اب لیڈر بھی۔
خیر 2013 میں پراڈکٹ کو دھوم دھڑکے سے لانچ کیا گیا اور پراڈکٹ نے کافی کامیابی حاصل کی۔ ایک ممبر والی پارٹی 2-3 سال ہی کے عرصہ میں ایک پورے صوبے پر نافذ کر دی گئی (بعینہ، جیسے کرفیو، دفعہ 144 یا مارشل لاء نافذ کیا جاتا ہے)۔ اس سارے مارکیٹنگ آپریشن میں ایک تماشہ یہ ہوا کہ لنگڑا گھوڑا واقعی اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھ بیٹھا لیکن اصطیبلشمنٹ نے اپنی سرمایہ کاری کو ضائع سمجھتے ہوئے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔
خیر اصطیبلشمنٹ نے کڑوے گھونٹ پی کر نئی حکومت کو برداشت کیا اور امید لگا لی کہ انہی پر زیر زبر پیش لگا کر اپنے مفادات حاصل کر لیے جائیں گے مگر چند ہی مہینے میں ان کو پتہ چل گیا کہ ان تلوں سے اب مذید تیل نہیں نکلنےکا۔ اب گھوڑے کو نئے سرے سے لانچ کرنے کا پلان بنا۔ ایک نوسرباز کو کینیڈا سے امپورٹ کروایا گیا جو ایسے معاملات میں خاص مہارت رکھتا تھا۔
گیم میں جذبات بھرنے کے لیے 10-12 لاشیں فراہم کی گئیں اور گھوڑے کو نوسرباز کے ساتھ ایک کنٹینر پر چڑھا کر مارکیٹنگ کا ایک نیا طریقہ کار استعمال کیا گیا۔ میڈیا کی زبان میں اسے ’’روڈ شو‘‘ کہا جاتا ہے۔ روڈ شو کا ظاہری مقصد تو دھاندلی کا رولا تھا مگر بچہ بچہ جانتا تھا کہ یہ ایک چار ستارہ جرنیل کو احتساب کے چنگل سے نکالنے کی کوشش ہے۔ کوشش بار آور ثابت نہ ہوئی اور دھرنا اپنا منہ سا لے کر رہ گیا۔ اب اس تاریخی کہانی کو فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ اسطیبلشمنٹ اس واقعہ کے بعد سمجھ گئی کہ اپنا گھوڑا اپنا ہی ہوتا ہے، چاہے معذور ہی ہو، سو اگر اپنے کام کروانے ہیں تو اسی گھوڑے پر انحصار کیا جاسکتا ہے۔ پھر شروع ہوا اصل ایکشن۔ لاک ڈاؤن کے خنجروں، مذہب کی تلواروں، غداری کے نیزوں، کرپشن کے کلہاڑوں اور میڈیا ٹرائل کی تیر اندازی سے ایک منتخب حکومت پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ زخم خوردہ حکومت گھائل ہوتی رہی مگر چلتی رہی۔ الٹا ہر حملے کے بعد مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ درمیان میں ایسے کئی موقع آئے جب اسطیبلشمنٹ اپنے گھوڑے سے توقع کرتی رہی کہ کچھ ایسا کر جائے کہ بازیاں پلٹ جائیں مگر یہ گھوڑا ہر بار گدھا ہی ثابت ہوتا رہا۔
وقت گزرتا رہا، فریقین کے بے چینی بڑھتی گئی، ہر الزام کے باوجود، اپنا لیڈر کھونے کے باوجود، میڈیا ٹرائل کے باوجود جب غیر ملکی سرویز یہاں تک کہ شدید ترین مخالفین نے کھلے عام کہنا شروع کیا کہ ’’روکو انہیں ورنہ ن لیگ ہی اگلا الیکشن سویپ کرے گی‘‘ تو اسطیبلشمنٹ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
گھوڑے کو اصطبل میں بلوایا گیا اور صاف، سرد اور کورے الفاظ میں بتا دیا گیا کہ “دیکھ بھائی! تجھ سے نہیں ہوگا، اب ہمیں ہی کچھ کرنا پڑے گا، لیکن کچھ کرنے کی ہماری ایک فیس ہے۔ اگر فیس بھرنے کی حامی بھرتے ہو تو کام شروع کریں۔ فیس کام ہونے کے بعد وصول کریں گے‘‘۔ گھوڑا جو مسلسل ہار کی شکل دیکھ کر بالکل اکتا گیا تھا اس نے حامی بھر لی کہ بس ایک دفعہ ریس جتوا دو، باقی میں آپ کا خادم۔
اس کے بعد وہ سیاہ کرتوت شروع ہوئے جن کی بازگشت ملکی سے غیر ملکی اخبارات میں بھی سنائی دینا شروع ہوئی۔ ایک عدد منصف بھاڑے پر اٹھایا گیا اور اس آپریشن ’’ردوبدل‘‘ کا باقاعدہ بے شرم آغاز ہوا جس کو پاکستان کے بچے بچے نے دن دیہاڑے کھلی آنکھوں دیکھا۔ بے شرمی اور دیدہ دلیری کا لیول اس حد تک پہنچ گیا کہ بعض اوقات تو اسطیبلشمنٹ والوں کو منصف کو کہنا پڑا کہ ’’استاد ہتھ ہولا رکھ، مصالحہ بہت تیز ہوگیا ہے‘‘۔ الیکشن سر پر آگئے، ایک مہینہ رہ گیا اور ابھی تک سرویز یہی کہہ رہے تھے کہ ن لیگ جیت رہی ہے۔ ستارے پریشان تھے، منصف حیران تھے اور گھوڑا منہ میں کھر ڈالے دونوں کا منہ تک رہا تھا۔
اب نوبت یہاں تک آگئی کہ جنگ میں ریزرو دستے بھی اتارنے پڑ گئے۔ لیڈر جیل میں ڈلوا دیے، آدھے توہین عدالت میں دھر لیے، کسی کو منشیات اور کسی پر کرپشن کے الزام، نیب نامی ایک فنکار میدان میں سرگرم ہوا، اسطیبلشمنٹ کی چھتری تلے نئی سیاسی جماعتیں بنی، نئے سیاسی اتحاد بنے، گھوڑے کی پارٹی میں لوگوں کو ڈرا کر، دھمکا کر، لالچ دے کر اور تھپڑ مار کر شامل کروایا، ن لیگ کے لوگوں کو جان کی دھمکیاں ملیں، مار پڑی، 16-17 ہزار مقدمے ہوئے، ٹکٹیں واپس کروائی گئیں، پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے ہوئے، آر ٹی ایس بٹھائے گئے، رزلٹ دنوں کے حساب سے لیٹ کروائے، گنتی میں ہیرا پھیری کروائی گئی غرض جو کچھ بھی اصطیبلشمنٹ کے بس میں تھا وہ کر دیا گیا۔
مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔۔۔میرے کالم کا مدعا تو ایک بھرپور قہقہے کے ساتھ یہاں سے شروع ہو رہا ہے۔ ساڑھے تین لاکھ فوج، پانچ سات جج، 30 سے اوپر میڈیا چینلز، سوشل میڈیا کے ہزاروں پروپیگنڈا پیجز، کلو کے حساب سے خریدے گئے درجہ چہارم کے خودساختہ صحافیوں کے بینڈ باجوں میں منقعد اس الیکشن ریس کا نتیجہ نکلا تو پتہ چلا کہ سارا زور تو مخالف شرکا پر گولیاں برسانے میں لگ گیا لیکن اپنا گھوڑا پھر اختتامی لائن سے کئی سو گز پرے ہی بے ہوش ہو کر گر گیا ہے۔ اسطیبلشمنٹ نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ اتنا نالائق ثابت ہوگا کہ اس کے مخالف باندھ کر بھی بٹھا دو تو بھی اکیلا پورا ریس ٹریک نہیں بھاگ سکتا۔ فوری طور پر جیٹ ترین صاحب کا انتظام کیا گیا جو اپنے نوٹوں کی بوریاں بھر کر آزاد امیدواروں تک پہنچے اور انہیں اس گھوڑے کی نیم مردہ لاش کو گھسیٹ کر اختتامی لائن تک پہنچانے کے کام پر لگایا۔ مگر گھوڑا اتنا کاہل، لاش اتنی وزنی اور اختتامی لائن اتنی دور تھی کہ اس لاش کو کھینچتے کھینچتے ان آزاد امیدواروں کا بھی سانس پھول گیا۔ جیٹ ترین نے مایوسی سے اضطراب کے عالم میں سگریٹ پھونکتے 3 ستاروں والوں کی طرف دیکھا اور کہا ’’سر جی! یہ نہیں پہنچے گا۔ ہمیں وہ کرنا پڑے گا جس کے خلاف ہم اس کے سپورٹرز کو بھڑکاتے رہے ہیں۔‘‘
3 ستارے والے نے اپنی سگریٹ زمین پر پھینکی اور ایک پیار بھری موٹی سے گالی گھوڑے کے سپورٹران کو نکالتے ہوئے کہا، ’’کوئی مسئلہ نہیں، وہ آج تک اس گھوڑے کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے سجدے دھرتے رہے ہیں وہ اس کو بھی پی جائیں گے۔‘‘
جیٹ ترین پھر کسمسایا، ’’سر جی! یہ کیسے ممکن ہے کہ پنجاب کے ڈاکو، زرداری بیماری اور کراچی کے قاتلوں کو ہم ساتھ ملائیں اور یوتھ نا بولے۔‘‘
3 ستارے نے ہنس کر کہا، ’’جیٹ ترین، یہ یوتھ اپنے ہاتھوں پالی ہے ہم نے۔ اگر ہم ان سے عامر لیاقت اور فواد چوہدری کو ووٹ ڈلوا سکتے ہیں تو یہ بقیہ تو چھوٹا موٹا سا ہی مسئلہ ہے۔‘‘جیٹ ترین قہقہہ لگا کر ہنس پڑا اور کہانی کا ’’یپی اینڈ ہوگیا۔‘‘
جب تک یہ سطور آپ تک پہنچیں گی تو گھوڑے کی نیم مردہ لاش کو اسطیبلشمنٹ، عدلیہ، میڈیا، بیس آزاد امیدواروں، پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو، زرداری پاکستان کی سب سے بڑی بیماری اور کراچی کے قاتلوں کی مدد سے کھینچ گھسیٹ کر اختتامی لائن سے پرے پھینک دیا گیا ہوگا۔ میں چاہتا تھا کہ اسی کالم میں گھوڑے کو مبارکباد پیش کر دوں لیکن آخری اطلاع کے مطابق گھوڑے کو ابھی تک ہوش نہیں آیا۔ اس لیے اس تمام یوتھ کو بہت بہت مبارک ہو جو سمجھ رہے ہیں کہ 22 سال کی ’’سر توڑ‘‘ کوشش کے بعد ہمارے دیسی فارسٹ گمپ گھوڑے نے آخر ریس جیت ہی لی۔