Win Win Situation بعد از انتظار آگیا وہ شاہکار

 وقاص احمد

مولانا کا فلیگ شپ شو ہاں/ نہیں، کب/کہاں، کیوں/ کیسے، اب/ تب، حقیقت/سازش، عوام/ایمپائر یا  “کس کے خلاف” کے مراحل سے گزرتا گزرتا آخرکار پوری گھن گرج سے شروع ہوچکا ہے۔ اگر شرکاء کی بات کریں تو بلامبالغہ پاکستان میں اتنی تعداد اور اتنی کمٹمنٹ کے ساتھ خال خال ہی مارچ ہوئے ہیں۔ پٹواریوں اور جملہ اہلیان یوتھ سے معذرت کہ مولانا اس معاملے میں انہیں بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ مولانا کے دھرنے کی “خوبصورتی” شرکاء کی تعداد، ان کا لگاؤ، مولانا کو دی گئی سلامی، پریڈ، ڈسپلن، ڈھنڈ، بیٹھکیں یا ڈنڈے نہیں ہیں۔ بلکہ مولانا کے دھرنے کی اصل خوبصورتی یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک کسی کو یہ سمجھ نہیں لگنے دیا کہ ان کا ٹارگٹ کیا ہے؟  

کیا مولانا جیسا گھاگ سیاستدان یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس مارچ کی بناء پر وزیراعظم سے استعفیٰ لے سکتے ہیں؟ ایسا استعفیٰ جو خاں صاحب  طاہر القادری، فوج، خفیہ ایجنسیوں اور مہیا کی گئی لاشوں کے باوجود نا لے سکے؟

(نہیں ایسا بالکل نہیں)

کیا مولانا کو وہیں سے کوئی اشارہ ہوگیا ہے جہاں سے عمومی طور پر اشارے ہوتے ہیں؟

(تجزیے سے لگتا ہے کہ ایسا بھی کچھ نہیں)

کیا مولانا خود کو کسی کے سہارے وزیراعظم کی کرسی پر دیکھ رہے ہیں؟

میرا خیال ہے کہ مولانا کے جارحانہ بیانات اور یہ مفروضہ آپس میں میل نہیں کھاتا۔ اگر یہ سب نہیں ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا کیوں آرہے ہیں؟

اس سوال کے جواب کی تلاش میں بڑے بڑے تجزیہ نگار اپنے تجزیات پیش کر چکے ہیں تو ان کے سامنے مجھ  جیسے کیا بیچتے ہیں۔ اس لیے میں تو اپنے انصافی بھائیوں کی اشک شوئی کے لئے صرف اتنا بتائے دیتا ہوں کہ کم از کم مولانا کے مارچ کے نتیجے میں تو حکومت نہیں گرنے لگی “اگر” (اور یہ بہت بڑا اگر ہے) حالات ویسے بن نا جائیں یا بنا نہ دیئے جائیں جو 2014 میں بنائے گئے تھے۔ ن لیگ اپنی عددی طاقت، اپوزیشن کی سپورٹ اور اپنے لیڈر کی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے بچ گئی تھی۔ ان حالات میں خاں صاحب 10 دن بھی برداشت نہیں کر پائیں گے اور ان حالات کا امکان دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ تحریک انصاف کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ مولانا حلوے کھانے اور لسی پینے کے شوقین ہیں اور ایک وزارت کی مار ہیں۔ ہوسکتا ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مولانا جس وزارت کی مار ہیں (وہ وزارت عظمیٰ ہے اگر آپ دے سکیں تو)

دوسری طرف ہمارے اللہ لوک “سیلیکٹیڈ”  وزیراعظم ہیں۔ جن کو اپنی وزارت عظمیٰ کا بیوی سے اور مہنگائی کے بارے میں ٹی وی سے پتہ چلتا ہے۔  تازہ ترین خبر کے مطابق وزیراعظم صاحب نے حافظ حمد اللہ، مولانا کفایت اللہ کے خلاف کاروائی اور پیمرا کا صحافیوں کو دیے گئے ہدایت نامہ کو “فضول اور بے وقوفانہ”  قرار دیتے ہوئے کابینہ اجلاس میں اس معاملے پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات جہاں میرے لیئے خوشی کا باعث ہے کہ خاں صاحب نے ان غیر جمہوری حرکات کی مذمت کی ہے وہیں حیرانی اور پریشانی کا باعث ہے کہ اگر حکومت خاں صاحب ہی کی ہے تو یہ فیصلے کون کر رہا ہے؟  کہیں یہ بقول انور مقصود “دکھائی بھی نہ دے اور نظر بھی جو آرہا ہے وہی باجوہ ہے” والا معاملہ تو نہیں؟ خیر یہ مجھ سے زیادہ اہلیان یوتھ کے لیے باعث پریشانی ہونا چاہیے کہ اگر “ایک پیج” پر لٹکتی حکومتی اور فوجی قیادت بنیادی نوعیت کی فیصلہ سازی میں دو مکمل متضاد رائے رکھتے ہیں تو جلد یا بدیر یہ پیج پھٹ جائے گا اور اس کے بعد کا نتیجہ آپ کو معلوم ہی ہے۔ اس لیئے تو کہتے ہیں کہ اپنا پیج اپنے گھر سے لانا چاہیے، مینڈیٹ کے ساتھ۔ فوجی پیج پر جاکر بیٹھیں گے تو کچھ دن بعد ہی ایک دوسرے کو کہنیاں لگنا شروع ہوجاتی ہیں۔ خیر بات مولانا کے مارچ سے شروع ہوئی تھی۔ بلکہ مولانا کے مارچ سے تو کیا بلکہ یہ کہنا زیادہ  مناسب ہے کہ “سیلیکٹیڈ” صاحب کی حکومت کی نااہلیوں سے شروع ہوئی تھی۔ ان کی نااہلیت کی لسٹ اتنی لمبی اور ہولناک ہے کہ کالم میں گنجائش نہیں۔  وجوہات اتنی ہیں کہ ان پر بحث کرتے کرتے زندگی بیت جائے۔ پاکستان کے دو نازک ترین معاملات خارجہ اور خزانہ ہیں اور دونوں میں ہماری حالت کی گواہی خود ہماری حالت دیتی ہے۔

اب مسئلہ پھنسا ہوا ہے   “انا اور ضد” کے درمیان مثال سے سمجھیں  “بچے نے جھولے میں بیٹھنے کی ضد کی۔ ہم نے بتایا کہ یہ جھولا بہت تیز چلتا ہے اور تم ابھی چھوٹے ہو۔ بچہ ضد کرکے جھولے میں بیٹھ گیا لیکن اب حالت یہ ہے کہ آنکھیں خوف سے باہر ہیں، دل گردن میں دھڑک رہا ہے، قے آنے آنے کو ہے، جان نکلتی محسوس ہورہی ہے، قریب ہے کہ بچہ دھاڑیں مار مار کر رو پڑے لیکن صرف ضد کی وجہ سے بول بھی نہیں پا رہا”

اب بطور اچھے والدین آپ کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟

کیا بچے کی جان لیں گے؟

نہیں ناں؟

جھولا رکوائیں گے اور بچے کو جھولے سے اتار دیں گے۔  ہمارے بھی دو بچے ضد کر کے جھولا چڑھ گئے ہیں۔ اب اترنے میں شرم آتی ہے کہ عزت جاتی ہے۔  نہ ہی رونے کا حوصلہ ہے کہ دنیا ہنسے گی۔ اب ہم نے ان بچوں کو جھولے سے اتارنے کا “محفوظ” راستہ ڈھونڈنا ہے۔ ذہن میں رکھیے کہ بڑا پن ہمیشہ بڑے ہی دکھاتے ہیں (بچے نہیں)۔ یہ ظاہری طور پر بہت اینٹھیں گے، غصہ بھی کریں گے، چیخیں چلائیں گے، ٹانگیں بھی ماریں گے کہ نہیں ہمیں ابھی اور جھولا جھولنا ہے لیکن ان کی آنکھوں سے چھلکتا خوف بتا رہا ہے کہ ان کو جھولے اترنے کی کتنی جلدی ہے، اتنی جلدی کہ یہ مقررہ وقت پر جھولا رکنے کا انتظار بھی نہیں کرنا چاہتے۔

جنرل شکریہ شریف کے وقت میں ہم نے ایک کامیاب تجربہ کیا تھا۔ چونکہ شکریہ شریف کی شہرت پاکستان سے بڑی ہوگئی تھی اس لیے ہم نے اپنے آموزدہ ترین دوست سے درخواست کی کہ انہیں ایک بڑا سارا عہدہ دیکر ہماری جان خلاصی کروائیں۔ دوست نے انہیں لمبی چوڑی تنخواہ پر “امت مسلمہ کا سپہ سالار” بھرتی کر لیا۔

ابھی بھی ہم اپنے دوست سے درخواست کرسکتے ہیں۔ اپنی یو این او والی تقریر کے بعد خاں صاحب “امت مسلمہ” کے لیڈر کے طور پر مشہور کر دیے گئے ہیں۔ باجوہ صاحب تو بائی ڈیفالٹ “امت مسلمہ” کے قلعے کے سپہ سالار ہیں۔ ہم اپنے دوست سے گزارش کرتے ہیں کہ پہلے والا “امت مسلمہ کا سپہ سالار” اب پرانا ہوگیا ہے۔ ہماری طرف سے تحفے میں نیا سپہ سالار قبول فرمائیں۔ رہے خاں صاحب تو ان کو بھی “امت مسلمہ کے وزیراعظم” کے طور پر وہاں نوکری دلوائی جاسکتی ہے۔ ان سے تقریریں کروا لیا کریں پیسے پورے ہوجائیں گے۔ ایک بچہ اور ہے تو میری ایک ٹی وی چینل والے سے واقفیت ہے۔ اس کو وہاں پروڈیوسر بھرتی کروا دیں گے کیونکہ ماشااللہ سے  ڈرامے، گانے اور فلمیں اچھی بنا لیتا ہے۔

“?Win win situation”