آٶ! تینوں واقعات کے درمیان فرق تلاش کریں ”سانحہ ساہیوال، نقیب محسود اور انتظاراحمد ماوراۓ عدالت قتل“
مہناز اختر
بھارت میں ہر سال ٢٣ جنوری کے روز سبھاش چندر بوس عرف نیتا جی کا جنم دن عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ نیتا جی کی شخصیت کے سحر کا عالم یہ ہے کہ بہ یک وقت انقلابی اور فسادی دونوں ہی ان سے متاثر ہیں۔ نیتا جی نے ہی کہا تھا ”تم مجھے خون دو، میں تمہیں آزادی دونگا“۔ کسی بھی تحریک کو انقلاب میں تبدیل کرنے کہ لیۓ سب سے ضروری شۓ خون ہے لیکن آج کل کسی مقتول یا مظلوم کی ایک اچھی دل موہ لینے والی تصویر بھی تحریک یا واقعے کو انقلاب میں تبدیل کرنے کے لیۓ ضروری ہے۔ اگر سانحہ ماڈل ٹاٶن نہ ہوا ہوتا تو کیا طاہرالقادری کی سیاسی تحریک کو وہ پہچان ملتی جو ملی اور کیا طاہرالقادری اور عمران خان اتنا کامیاب دھرنا کر پاتے جو بالآخر نواز شریف کی رخصتی اور عمران خان کی سیاسی فتح کی بظاہروجہ بنا؟ ماڈل ٹاٶن کے شہیدوں کے خون اور عوام تک پہنچنے والی انکی تصاویر نے پورے پاکستان کو ہلا کردیا تھا۔ اسی طرح سانحہ ساہیوال ”سانحہ“ تب قرار پایا جب ہم تک معصوم بچوں کی تصاویر پہنچی جیسے زینب واقعہ میں بھوری آنکھوں والی خوبصورت زینب کی تصویر نے بہت اہم کردار ادا کیا ورنہ کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات زینب سانحے سے پہلے بھی ہوتے تھے اور بعد میں بھی تواتر سے ہوۓ مگر ان مقتول بچوں کی کچلی ہوٸی لاشیں کی معمولی تصاویر وہ اثرات مرتب کرنے میں ناکام رہیں جو زینب کی تصویر نے کردکھایا۔
سال 2014 سے چلنے والی منظور پشتین کی تحریک ”محسود تحفظ موومنٹ“ کے بارے میں کتنے لوگ جانتے تھے؟ لیکن 13 جنوری 2018 کو راٶ انوار کے ہاتھوں ماوراۓ عدالت قتل کیۓ جانے والے نقیب اللہ محسود کی تصویر نے اس تحریک کو کہاں سے کہاں پہنچادیا یہ ہم سب جانتے ہی ہیں۔ نقیب اللہ محسود کی تصاویر نے وہ کام کیا جو ہزاروں پختونوں کی لاشیں نہ کرسکیں اور آج ”پشتون تحفظ موومنٹ“ ببانگ دہل کہہ رہی ہے ”یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے“ اس سے پہلے ایسا کہنے والوں کا کیا انجام ہوا اسکا اندازہ الطاف حسین، ایم کیو ایم اور مہاجروں کے عبرتناک سیاسی انجام کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ”انکاٶنٹر اسپیشلسٹ“ راٶ انوار معتوب کیوں ہے؟ کیا اسلیۓ کہ اسنےکراچی میں کٸی افراد کو ماوراۓ عدالت قتل کیا یا اسلیۓ کہ اسنے ایک ”پختون“ نقیب اللہ محسود کا انکاٶنٹر کیا؟
نقیب اللہ محسود کے انکاٶنٹر کے روز کراچی میں ایک اور انکاٶنٹر ہوا تھا۔ ملاٸشیا میں تعلیم حاصل کرنے والا انیس سالہ انتظار احمد چھٹیوں پر کراچی اپنے گھر آیا ہوا تھا۔ 13 جنوری کی رات انتظار کی کار ڈیفنس کی سڑکوں پر رواں دواں تھی کہ اس کار کو اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں کی طرف سے ٹارگٹ کیا گیا اور گولیاں کچھ ایسے چلاٸی گٸیں کہ انتظار زندہ نہ بچے لیکن اسکے ساتھ بیٹھی اسکی دوست مدیحہ کو خراش تک نہ آئے۔ اس انکاٶنٹر کا ذمہ دار براہِ راست ACLC کی چیف SSP مقدس حیدر کو ٹہرایا گیا اور اس پر JIT بھی بنا دی گٸی لیکن انتظار کے والد آج بھی انصاف کے لیۓ ملتجی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انیس سالہ طالبعلم انتظار احمد کے لیۓ کتنی تحریکیں اٹھیں اور کتنے ”سچاٸی کے علمبردار“ ایکٹیوسٹوں نے اسکے لیۓ آواز اٹھاٸی؟ وجہ شاید یہ تھی کہ انتظار احمد کیس پر آواز اٹھانے سے کسی کو کوٸی سیاسی فاٸدہ نہیں ہونا تھا اور بین الاقومی سطح پہ خراجِ تحسین کا بھی کوٸی امکان نہیں تھا۔
آج پورے پاکستان سے آوازیں آرہی ہیں کہ اگر نقیب اللہ محسود یا ماڈل ٹاٶن مقتولین کے ریاستی قاتلوں کو سزا مل جاتی تو سانحہ ساہیوال رونما نہ ہوتا لیکن کراچی سے کچھ آوازیں آرہی ہیں کہ اگر 1993 میں کراچی میں قاٸم ”ریاستی فلاحی“ ایجنسی کے دفتر میں وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں مہاجروں کے ماوراۓ عدالت قتل کا منصوبہ نہ بنایا جاتا، اسلم چوہدری اور راٶ انوار جیسے افسران کو ”موت کے فرشتوں“ والی ڈیوٹی نہ دی جاتی ، 1995 میں فہیم فاروقی عرف فہیم کمانڈو کا راٶ انوار کے ہاتھوں ماوراۓ عدالت قتل نہ ہوتا اور اسکے بھاٸیوں کو ”مقدس ادارے“ کے اہلکار بے دردی سے قتل نہ کرتے، کراچی میں ہونیوالی ہلاکتوں کا ”اسکور“ نہ پوچھا جاتا ، اور مہاجروں کے خلاف بدترین فوجی آپریشنز پر پورے پاکستان نے تالیاں نہ بجاٸی ہوتیں تو ہمیں آج یہ دن ہرگز نا دیکھنا پڑتا۔
جب کبھی پا کستان میں کوٸی سانحہ رونما ہوا ہے تو پورا پاکستان سراپا احتجاج بن جاتا ہے۔ پختون، بلوچ اور سندھی احتجاج کرنے کراچی آتے ہیں لیکن کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کراچی میں مہاجروں پر ہونیوالے مظالم کے خلاف پشاور، فاٹا، کوٸٹہ، لاہور یا لاڑکانہ میں کوٸی احتجاجی جلسہ کیا گیا ہو۔ آج 24 جنوری کو جب میں نصف مضمون لکھ چکی ہوں تو ٹی وی پر بریکنگ نیوز نشر ہورہی ہے کہ نقیب محسود ماوراۓ عدالت قتل کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نقیب محسود اور دیگر افراد کو ماوراۓ عدالت قتل کیا گیا تھا اور بعد میں اسے جعلی مقابلہ قرار دے دیا گیا۔ اسی ہفتے 20 جنوری کے روز کراچی میں ہونیوالے PTM کے جلسے میں مروتاً تحریک کے قاٸدین نے کراچی والوں پر ظلم کی بات کی ہے لیکن 13 جنوری 2019 بروز اتوار کو کراچی میں دو مختلف تعزیتی بیٹھکوں کا انعقاد ہوا، ایک سہراب گوٹھ میں جہاں پختونوں نے شرکت کی اور نقیب محسود کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا، شرکاء کا لہجہ جارحانہ اور باغیانہ تھا۔ اسکے برعکس دوسری تعزیتی بیٹھک انتظار کی یاد میں ڈیفنس میں منعقد کی گئی مگر اسکے والد کا لہجہ ملتجیانہ تھا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ دونوں تقریبات ایک مقام پر ہوتیں اور انصاف کا مطالبہ کیا جاتا کیونکہ دونوں کا قتل کراچی میں ہوا تھا لیکن ٹہریں! انتظار اور نقیب میں ایک واضح فرق تھا۔ نقیب پختونوں کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کا بیٹا تھا اسکے برعکس انتظار مہاجروں کی اولاد نیز کراچی کا بیٹا تھا۔
شاید نقیب کو انصاف مل جاۓ جیسے زینب کو مل گیا لیکن اب مجھے ”انسٹنٹ انصاف“ سے تعصب اور جلد بازی کی بو آتی ہے۔ کیا اب پاکستان میں صرف ان لوگوں کو ہی انصاف ملا کرے گا جنکی پشت پر PTM جیسی تحریک ہوگی؟
پی ٹی ایم یا پختونوں کا حکومت پر بڑھتا ہوا دباٶ دیکھ کر مجھے کراچی میں خوف محسوس ہورہا ہے کیونکہ میں نے کراچی میں پختون مہاجر فسادات دیکھے ہیں، میں یہ بھی جانتی ہوں کہ 80 کی دہاٸی سے پاکستان کو مسلمان بنانے کی ذمہ داری پختون قوم نے اٹھاٸی ہے اور اسکے خوفناک اثرات کراچی میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں، میں نے کراچی کے مضافاتی علاقوں کو قباٸلی علاقہ جات بنتے دیکھا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ بنارس کا طویل پہاڑی سلسلہ صرف دس پندرہ سال پہلے تک دور سے سنہری چٹیل سلیٹ کی طرح دکھاٸی دیتا تھا مگر اب وہ پہاڑی سلسلہ ”کٹی پہاڑی“ اور ”منی پختونستان“ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ میں نہی جانتی کہ پختون تحفظ موومنٹ جو عوامی قوت اکٹھا کررہی ہے وہ قوت مستقبل میں فقیر ایپی، باچا خان یا ملّا فضل اللہ میں سے کس کے نظریات کو لے کر آگے چلی گے۔ میں صرف اتنا جاننا چاہتی ہوں کہ پاکستان میں موجود ریاستی اور قومی تعصب و تضادات کی موجودگی میں کراچی اور مہاجروں کا مستقبل کیا ہوگا؟
آج کراچی کے کٸی ”طالبانی اسلام“ حمایتی پختون PTM کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پختونوں کو PTM کی شکل میں کراچی میں اکھٹا ہوتے دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آرہا ہے جس دن کٹی پہاڑی میں واقع مسجد سے پشتو میں اعلان کروایا گیا تھا ”ایک ضروری اعلان، میرے پختون بھاٸیوں گھر سے نکلو، مرد بنو یہودی نسل سے تعلق رکھنے والے مہاجروں پر جہاد ضروری ہے کیونکہ انکی نسل مسلمانوں میں سے نہیں ہے“ اسکے بعد بنارس کی پہاڑی آبادی سے قصبہ ٹاٶن پر مسلسل فاٸرنگ کی گٸی تھی اور مجھے فون پر اپنے عزیزوں کی شہادت کی خبر ملی تھی۔ تب ہم نے خود کو اکیلا محسوس کیا تھا کیونکہ پورا پاکستان کراچی کے مہاجروں کو MQM کے ”گناہوں“ کی سزا دینا چاہتا تھا۔
”لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں، یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے“ کاش کہ ”تم“ نے اس وقت بھی آواز اٹھاٸی ہوتی تو ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔