بنام بشریٰ بی بی زوجہ وزیراعظم پاکستان عمران خان
مہناز اختر
بشری صاحبہ یہ پہلا موقع ہے کہ میں آپ سے کچھ عرض کرنے جارہی ہوں۔ بخدا اگر آپ صرف بشری بی بی ہوتیں اورعمران خان ایک سیاستدان تو مجھے آپ کے کسی بیانیے سے کوٸی فرق نہ پڑتا۔ جیسے کہ آپ جانتی ہیں اسلامی ریاست کا خلیفہ دین محمدی کی رو سے راعی ہے اور اپنی رعایا کے لیۓ اللہ اور اسکی مخلوق کے آگے جواب دہ ہے. اس لیۓخلیفہ وقت کی اہلیہ ہونے کی حیثیت سے کسی حد تک آپ بھی اپنے عوامی بیانیوں پر جواب دہ ہیں۔
گزشتہ ہفتے آپکو ٹی وی پردیکھا۔ دوران گفتگو آپ باربار دین محمدی کا ذکر کرتی رہیں اور آپکی باتیں سن کر میں یہ سوچنے پرمجبور ہوگٸی کہ بچپن سے لیکر آج تک جس دین محمدی کا مطالعہ میں نے کیا, کیا وہ اس دین محمدی سے مختلف تھا جسکا مظاہرہ آپ فرمارہی تھیں۔ آپکو سماعت فرمانے کے بعد میں نے فلسفہ جبر وقدر کو دوبارہ سمجھنے کی کوشش کی اورخدا کی صفات پر ازسرنو غور کیا پھرخدا سے یہ سوال پوچھا کہ اشرافیہ کے لیۓ تو رحیم و کریم ہے لیکن پاکستان کی غریب عوام کے لیۓ خداۓ جباروقہا رکیوں ہے؟
میں نےخدا سے یہ بھی پوچھا کہ تو کیسا رب ہے؟ تیرے ولیوں کے مزارات پر جاکر تیرے کرم کی بھیک مانگنے والوں کے نصیب صدیوں سے سیاہ ہیں لیکن ان مزارات پر بیٹھے گدی نشینوں کی شان و شوکت روز بروز بڑھتی جارہی ہے, کہیں ایسا تو نہیں کہ تیری رحمت کے فرشتے رستہ بھولنے لگے ہوں اور غریبوں کی دعاٶں کا ثمر امیروں کی جھولی میں ڈال آتے ہو؟
بشری بی بی جس دین محمدی کا مطالعہ میں نے کیا ہے وہاں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بخوشی فقر وفاقہ اختیار کیا۔ انکا معیار زندگی عام انسانوں جیسا تھا۔ وہ اشرافیہ میں گھرے رہنے کے بجاۓ غریبوں کی غمخواری کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ غزوہ خندق میں خندقوں کی کھدائی کے دوران جہاں صحابہ کرام نے اپنے پیٹ پر ایک پتھر باندھا تھا وہاں آپ نے دو باندھ رکھے تھے۔ جگر گوشہ رسول سیدہ فاطمة الزہراؓ کو ریشمی لباس ,اعلی خوراک اور ملازم میسر نہ تھے۔ اسی دین محمدی میں خلیفہ دوم حضرت عمرؓ فاروق کی مثال بھی موجود ہے۔ خلیفہ دوم اپنی طرف سے تمام ضروری اقدامات کے باوجود بھی رات کے وقت غرباء کی بستی کا چکر لگایا کرتے تھے تاکہ اگر کوٸی محروم رہ گیا ہو تو اسکی خبرگیری کی جاسکے۔
میں نے دین محمدی میں یہ بھی پڑھا ہے کہ ایک خلیفہ ہوا کرتے تھے جنکا نام عمربن عبدالعزیز تھا۔ بار خلافت ملنے سے پہلے انکا شاہانہ طرززندگی انکی نفاست اور خوش پوشاکی کے قصے زبان زدوعام تھے لیکن خلافت ملتے ہی انہوں نے اپنا طرز زندگی یکسر تبدیل کردیا۔ میں آپکو ابو بن ادھم کی کہانی بھی یاد دلانا چاہتی ہوں بشرط یہ کہ آپ نے پڑھ رکھی ہو۔ مزید یہ کہ میں آپکو ملکہ زبیدہ کی یاد بھی دلانا چاہتی ہوں۔ جب ملکہ زبیدہ کو سفر حج کے دوران معلوم ہوا کہ شہر مکہ شدید آبی بحران کا شکار ہے تو آپ نے اپنے مال سے نہر زبیدہ کی تعمیر کرواٸی۔ بشری صاحبہ ملکہ زبیدہ کی طرح آپکو عوام کے حالات کا علم کیسے ہو؟ آپکی سواری تو ان رستوں سے گزرتی ہی نہیں جہاں غریب بستے ہیں۔
آپکی گفتگوسن کرمجھے ایسا محسوس ہوا کہ آپ شاید پندرہ سولہ برس کی شاہ زادی ہوں جسنے محل سے باہر کی دنیا نہ دیکھی ہو،غربت،بھوک اور بڑھاپا نہ دیکھا ہو, اورخاتون اول بننے کا بعد جب پہلی بار ان دکھوں کا مشاہدہ کیا تو ایسے بے چین ہوٸیں جیسے گوتم بدھ ہوۓ تھے۔ بشری بی بی پاکستان کی غریب عوام کو آپکی طرح ریشم و اطلس میسر نہیں ہے۔ یہ نسلی مفلوک الحال ہیں۔ مزارات پر حاضری یا عبادات سے انہیں روٹی نہیں ملتی اور نہ انکے گھروں کا چولہا جلتا ہے۔ انہیں عبادت کے لیۓ وہ فرصت اور سہولت بھی میسر نہیں جو آپکو حاصل ہے کہ یہ اسی خشوع و خضوع سے عبادت کرسکیں جیسے آپ کرتی ہیں۔
خان صاحب کے چہرے پر باغیچے کے پودوں کے مرجھانے کا غم آپ کو دکھی کرگیا اور آپ کافی دیر تک بارش کی دعا کرتی رہیں۔ میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں کہ تھر میں ایک بار پھر سے خشک سالی نے پنجے گاڑ دیۓ ہیں، سینکڑوں بچوں کی اموات ہوچکی ہے،کراچی اور بلوچستان میں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں،ہر سال سندھ سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے بہت ساری اموات ہوتی ہیں کچھ دعاٸیں اور وظاٸف انکے لیۓ بھی کریں۔
بشری بی بی ایک مرتبہ ملک کے چاروں صوبوں کے پسماندہ ترین علاقوں کا دورہ کریں یا کم از کم کراچی تشریف لے آٸیں۔ یہاں کی کچی بستیوں کی خبر لیں،خصوصاً خیبر پختونخواہ سے آۓ لوگوں کی کچی بستیوں کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ یہاں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے پختونوں کے بچوں کو دو سال کی عمر سے ایک گندہ سا تھیلا پکڑا کر کچرا چننے پر لگادیا جاتا ہے پھر وہ بچہ بڑے بچوں کے ساتھ رہ کر کچرے سے اپنی خوراک،اپنے کھلونے اور اپنا روزگار تلاش کرنا سیکھ لیتا ہے۔ میں آپ سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ خان صاحب اور آپکے چہیتے کتے”موٹو“ کی قسمت پاکستان کے لاکھوں بچوں سے بہتر ہے۔ پیشگی معذرت کہ میں سخت الفاظ ادا کرنے جارہی ہوں لیکن یہ بات سوفیصد سچ ہے کہ لاکھوں پاکستانی بچے پاکستان میں کتوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔
میں آپ پر بارِامانت اور ذمہ داری اس حد تک نہیں ڈالنا چاہتی کہ آپ کے ناتواں کندھے اور نازک دل اس کے بوجھ تلے دب جائے ہاں مگر بحیثیت خاتون آپ پاکستان کی ان خواتین کی آواز تو بن سکتی ہیں جنکی سنواٸی اعلی ایوانوں تک نہیں ہوپاتی ۔ میں کھیتوں اور اینٹوں کے بھٹوں پر جبری مزدوری کرنے والی خواتین کی بات کررہی ہوں۔ تپتی دھوپ میں جل کر اپنے خاندان کا رزق کمانے والی ان خواتین کے لیۓ ابیض ریشمی حجاب کرنا ناممکن ہے اور غم روزگار نے انہیں انکی نمازوں سے بھی غافل کررکھا ہے۔ ایک ملاقات بڑے شہروں کی پنجرے نما فیکٹریوں میں مزدوری کرنے والی خواتین سے بھی کیجیے اور کسی متوسط طبقے کی خاتون خانہ سے بھی ایک بارضروربات کیجیے اور دیکھیے کہ یہ گھریلوخواتین کیسے کم تنخواہ،کم بجلی،کم پانی،ناقص خوراک کے باوجود زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہی ہیں۔
کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن ایک مضمون میں کتنی کہانیاں بیان کی جاسکتی ہیں۔ محترمہ بشری صاحبہ امارت میں معرفت کاحصول قدرے مشکل ہے۔ عیش و آرام کی حالت میں خدا پر ایمان رکھنا اور اسکی رحمت کا یقین کرنا آسان ہے۔ ایمان کی معراج کے ادراک کے لیۓ آپ کو اپنے پاٶں زمین پر رکھنے ہونگے جہاں ایک غریب مزدور چلچلاتی دھوپ میں اپنا رزق کماتا ہے اور روکھی سوکھی کھا کر بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ایسے میں اگر آپ اورخان صاحب بہت بڑے گھر کو چھوڑ کر ایک کم بڑے گھر میں رہ رہے ہیں تو کیا بڑی بات ہے؟
محترمہ بشری صاحبہ میں اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ندیم ملک کو دیۓ جانے والے اس انٹرویوکا مقصد کیا تھا؟
اس انٹرویو سے ایک عام پاکستانی کو کیا فائدہ پہنچا؟
جس وقت آپ انٹرویو میں اپنے شوہر نامدار کی مدحت فرما رہی تھیں مجھے اسی وقت ریحام خان اور عائشہ گلالئ کے خان صاحب کے کردار پر لگاۓ گۓ الزامات یاد آگۓ. کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ انٹرویو خان صاحب کی سابق اہلیہ ریحام خان کی کتاب کا جواب تھا؟
مجھے معلوم ہے کہ ماضی میں خاور مانیکا اور آپکی طلاق کے حوالے سے آپ پر بہت سارے الزامات لگاۓ گۓ۔ بے شک اپنا دفاع کرنا آپکا حق ہے لیکن یہ آپکا ذاتی معاملہ ہے۔ میرے خیال سےاپنے ذاتی معاملات اور روحانی مکاشفات کی تشہیر کرنا مناسب نہیں ہے. مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ انٹرویو ایک خود ستائشی نشست تھی اوربحیثیت پاکستانی خاتون مجھے آپکے انٹرویو سےمایوسی ہوئی ہے ۔