بڑا ہے درد کا رشتہ: نسل پرستی بمقابلہ یکجہتی

عنایت بیگ

گزشتہ ہفتے ایک سندھی سیاسی جماعت کے کارکن کا کراچی میں دن دہاڑے قتل ہوا, جس کا تعارف جئے سندھ تحریک کے کارکن ارشاد رانجھانی کے نام سے ہوا۔ قاتل (رحیم شاہ) کراچی کے ایک یونین کاونسل کا چئیرمین, مافیا کا سرغنہ نسلا” پشتون نکلا۔

اس حادثے کے فوری بعد بڑا عوامی رد عمل دیکھنے میں آیا۔ سندھ سراپا احتجاج تو تھا ہی, مگر پشتونوں کی طرف سے اس واقعے کے خلاف شدید مذمت دیکھنے میں آئی۔ خود پشتون تحفظ مومنٹ کے رہنماوں نے قاتل رحیم شاہ کو کڑی سزا دئیے جانے کا مطالبہ کر دیا۔ عام پشتون نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز کے ذریعے رحیم شاہ کی مذمت کی اور ارشاد رانجھانی کے حق میں کھڑے نظر آئے۔
دو مظلوم قوموں کی ایسے نازک موقعے پر یکجہتی “نامعلوموں” کے لئے باعث اندیشہ تو تھی ہی۔ واقعے کو نسلی عصبیت کی طرف کے جانے کی سر توڑ کوششیں شروع ہو گئیں۔ نتیجتا” لاڑکانہ (نوڈیرو) میں دو پشتون مزروروں کا قتل ہوا۔ اور اس قتل کے ذریعے نسلی بنیادوں پر انتقامی معاملات کو خطرناک حد تک آگے بڑھانے کا واضح پیغام بھیجا گیا۔

مگر آج کی خبر یہ ہے کہ شاہ لطیف بھٹائی کے متوالوں نے لاڑکانہ میں دو پشتون مزروروں کے قتل کے خلاف 16 فروری کو احتجاجی مظاہرے کا اعلان کر کے نسلی پرستی کے کاروباریوں کی سازشوں کو خاک میں ملا دیا ہے اور 16 فروری کو مظلوموں کی باہمی یکجہتی کا عظیم مظاہرہ کرنے جا رہے ہیں۔

خوف ابھی برقرار ہے۔ سارشی عناصر اس آگ کو مزید ہوا دیں گے۔ مظلوم طبقات و مظلوم اقوام کو مل کر اس آگ کو بجھانے کی ضرورت ہے۔

ارشاد رانجھانی اور پشتون مزدوروں کے قاتل مردہ باد
سندھ و پشتونخواہ کے مظلوم عوام کی یکجتی زندہ با