جدید دو قومی نظریہ اور پشتون تحفظ موومنٹ

سہیل افضل خاں

بقول مصنف مطالعہ پاکستان، پاکستان کی بنیاد جس نظریہ پہ رکھی گئی اسے دو قومی نظریہ کا برقعہ پہنایا دیا گیا ۔جس کے مطابق ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں دونوں کا رہن سہن ،کھانا پینا ، زندگی گزارنے اور عبادت کا طریقہ کار اور رسم و رواج سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور دونوں قوموں کا اکٹھے رہنا مشکل ہے۔

لیکن 11 اگست 1947 کو بابائے قوم کی تاریخی تقریر اس دوران قومی نظریہ کی مکمل نفی کرتے ہوئے نظر آتی ہے
آگے چل کے یہی دو قومی نظریہ قراداد مقاصد کی بنیاد بنا اور اسے قرارداد مقاصد میں شامل کر لیا گیا۔

گزرتے وقت کےساتھ ساتھ یہی دو قومی نظریہ ہمیں پھر نصابی کتب میں بھی ملا اور اس دھرتی کے باسیوں کی عملی زندگی میں بھی ۔جنھوں نے اس دو قومی نظریہ کو اپنے اوپر پانچ نمازوں کی طرح فرض سمجھ لیا اور نمازوں سے زیادہ اس نظریے کی تبلیغ کرتے رہے۔

مصنف مطالعہ پاکستان نے اس نظریے کو آج تک مرنے نہیں دیا روزانہ ہم اس نظریہ پہ کسی نہ کسی طرح اپنی روز مرہ زندگی میں عمل کرتے نظر آتے ہیں کبھی امیر اور غریب کی شکل میں کبھی اشرافیہ اور متوسط طبقے کے درمیان اور کبھی کنٹونمنٹ بورڈز اور عام رہائشی علاقوں کی شکل میں۔

حال ہی میں ہمیں یہ نظریہ ملک دشمن تحریک پی ٹی ایم اور محب وطن ٹی ایل پی(یارسول اللہ) عرف عام اپنے لوگوں کی شکل میں نظر آیا۔

دسمبر 2017 فیض آباد دھرنا جس میں اپنے لوگ دھرنا دئیے بیٹھے تھے جو کہ فیض صاحب کے فیض سے فیضیاب ہونے کے بعد اختتام پذیر ہوا جس میں آقا دو جہاں کی اس حدیث پہ عمل کیا گیا کہ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دی گئی ۔ریاست کا ناقابل تلافی نقصان، عوام کو پیش آنے والی اذیت کا ادراک نہ ہی ریاست کو ھوا اور نہ مقتدر حلقوں کو۔

اسی طرح پاکستانی کے قبائلی علاقے کے لوگوں نے اپنے مسائل کے حل، آئین پاکستان میں دئیے گئے بنیادی حقوق کے حصول ، پشتونوں کی زبردستی اغواکاری اپنی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کیلیے پشتون تحفظ نامی ایک تحریک شروع کی جس کے بنیادی مقاصد اپنے ساتھ مسلسل 70 سالوں سے ہونے والے مظالم کا حساب مانگنا اور زیادتیوں کا خمیازہ طلب کرنا تھا۔

22اپریل 2018 کو لاہور میں ہونے والا پشتون تحفظ موومنٹ جلسہ آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ کیسے ریاست اور خفیہ اداروں نے اس جلسے کو ناکام بنانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا ۔حکومت وقت خاموش تماشائی بنی رہی لیکن یہ جلسہ کامیاب رہا ۔پہلی دفعہ پنجاب کے لوگوں کو پشتونوں پہ ہونے والے مظالم کی دلخراش داستان سنائی گئی ۔لاہور میں جلسے کی انتظامیہ کی پکڑ دھکڑ سے لیکر موچی دروازہ گراونڈ کو گندے پانی سے بھرنے تک تمام اوچھے ہتھکنڈے آزمائے گئے لیکن میزبانوں اور مہمانوں کے حوصلے بلند تھے جلسہ کامیاب ہوا۔

اصل مسئلہ جلسے کا ہونا یا نہ ہونا نہ تھا بلکہ جلسے میں لگائے جانے والے نعرے تھے جس کی وجہ سے تحریک کے تمام راہنماؤں کے خلاف خیبر پختون خواہ اور ملک کے مختلف علاقوں میں مقدمات درج کروائے گئے۔

دو قومی نظریہ جدید کا عمل دخل ہمیں فیض آباد دھرنے میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور کل اختتام پذیر ہونے والے احتجاج کے بعد ہونے والے معاہدہ میں بھی۔

دو قومی نظریہ جدید میں پنجاب کے پر تشدد مظاہرین کے ساتھ ریاستی اداروں اور حکومتی عمائدین کے مذاکرات و معاہدہ ،نہ کوئ ایف آئ آر ،نہ کوئی ای سی ایل میں نام اور نہ کوئ حراست میں دوسری جانب پی ٹی ایم کے پرامن مظاہروں پر غداری کے الزامات، ایف آئ آر ، متعدد ساتھی جیلوں میں اور ای سی ایل می نام۔

پی ٹی ایم کے لوگ تو صرف نعروں پہ اکتفاء کرتے ہیں جبکہ تحریک لبیک کے سربراہ نے نہ صرف بغاوت کی دھمکی دی بلکہ آرمی کے سربراہ کو قادیانی ہونے، ججز کے قتل اور آرمی میں بغاوت کا اعلان بھی کر دیا ۔بیچارے چیف آف آرمی سٹاف کو اپنے آپکو سچا مسلمان ثابت کرنے کیلئے گھر پہ میلاد کروانا پڑا۔

جبکہ دوسری طرف غدار وطن ٹھہرانے جانے والے ، اپنے آئینی حقوق کا مطالبہ کرنے والے پی ٹی ایم کے لوگ اپنے خلاف جھوٹے مقدمات میں ضمانتیں کرواتے پھر رہے ہیں تو کوئی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام نکلوانے کی کوشش ۔
ٹی ایل پی کے لوگوں کو کبھی تو اپنے لوگ کہا جاتا ہے اور کبھی ریاست سے نہ ٹکرانے کا مشورہ دے کر ان کے ساتھ معاہدہ کر لیا جاتا ہے ۔ہر کام میں ٹانگ اڑانے والے پہلے پہل تو خاموشی سے سارا ڈرامہ دیکھتے ہیں لیکن جب حالات کنٹرول سے باہر ہوجاتے ہیں تو یہ اپنی ٹانگ آرام سے پیچھے کھینچ لیتے ہیں اور ملک پاکستان کو خودکار نظام پہ ڈال کر محفل میلاد میں اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہیں دوسری طرف پی ٹی ایم کے لوگوں کو غدار ٹھہرانے کیلیے نا صرف باقاعدہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو لمحہ بہ لمحہ ہدایات جاری کی جاتی ہیں ۔میڈیا کا گلہ گھونٹ گھونٹ کر اس کے حلق سے ع اور غ کی آوازیں نکلوانے کی مشق کی جاتی ہے۔

کبھی ان کے روابط افغانستان تو کبھی اسرائیل کے ساتھ دکھائے جاتے ہیں ۔پی ٹی ایم والوں کے مسائل کیا ہیں ۔مطالبات آئینی ہیں یا غیر آئینی ۔ظلم کی داستان سچی ہے یا جھوٹی ۔لگائے جانے والوں نعروں میں کتنی صداقت ہے ۔اخروٹ اور چلغوزے کون چوری کرتا رہا اس بات کا پتہ لگانے کیلیے نہ تو مذاکرات کیے جاتے ہیں اور نہ ہی مزدوری کی اجرت بانٹی جاتی ہے ۔ہر کام میں ٹانگ اڑانے والے نظام کے ترجمان بھی پی ٹی ایم کے جلسوں اور احتجاج پہ بس کے کنڈکٹر کی طرح آواز لگاتے اور ہدایات جاری کرتے ملتے ہیں۔