جنوبی پنجاب کے عوام اور عثمان بزدار

عابد حسین

انسانیت زندگی میں دوسروں کے دکھ کو محسوس کرنے اور مشکل لمحوں میں بلا تفریق سہارا بننے کا نام ہے۔ بابا اشفاق احمد مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ انسان وہ ہے جو اوروں کا درد محسوس کرے کیوں کہ فقط اپنا درد تو جانور بھی محسوس کرتے ہیں۔

چند روز قبل تحصیل و ضلع ڈیرہ غازی خان میں ایک خوفناک حادثہ پیش آیا دو بسوں کے تصادم میں تیس افراد اپنی جان گنوا گئے اور پچاس افراد شدید زخمی ہوئی جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ سوشل میڈیا پہ خبر چلتے ہی وہاں کی مقامی آبادی سمیت آس پاس کے دیہات اور شہر کے عوام فوراً ضلعی ہسپتال ڈیرہ غازی خان پہنچے اور بِلا شبہ انسانیت کی مثال قائم کردی تقریباً تین ہزار افراد نے خون کے عطیات دئیے اور اس سے دگنی تعداد وہاں اس جذبے اور نیت سے موجود تھی کہ کہیں کسی کی زندگی خون کی کمی کی وجہ سے ضائع نہ ہو جائے اور ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ آج وہ کسی انسان کی زندگی بچا لے۔

یقیناً خداوند نے ایسے سچے اور بے لوث جذبات کے لیے ہی فرمایا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ حادثات زندگی کا حصہ ہیں اور سر پہ آئی کو بھلا کون ٹال سکا ہے ۔ مگر اس حادثے میں کسی کی موت کا سبب خون کا میسر نہ ہونا نہیں تھا اور نہ ہی زخمیوں کیلئے ڈاکٹروں کو اس پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

یقیناً ڈیرہ غازی خان کی عوام نے اپنے فرض کو خوب نبھایا اور اپنے عظیم ہونے کا ثبوت دیا۔ مظفر گڑھ روڈ اور انڈس ہائی وے پر اس وجہ سے بھی زیادہ ٹریفک رہتی ہے کہ یہ شہر چاروں صوبوں کے لیے ایک سنگم ہے، جس وجہ سے یہاں چوبیس گھنٹے ہیوی ٹریفک کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

جائے حادثہ محترم وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب کے سیاسی حلقہ کے نزدیک کا علاقہ ہے ایک طرف وہاں کی عوام جو تعریف کے حق دار ہیں تو دوسری طرف محترم وزیر اعلیٰ کی غیرذمہ داری اور بے حسی بھی قابل ملاحظہ اور افسوس کے لائق ہے۔
خاص و عام کو امید تھی کہ وزیر اعلیٰ صاحب اپنی مصروفیت ترک کر دیں گے زخمیوں کی عیادت کو پہنچیں گے انتظامیہ کو تمام ضروری سہولیات میسر کرنے کا حکم جاری کریں گے۔

مناسب امداد کا اعلان کریں گے کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ حادثات میں اکثر جان سے جانے والے اور زخمی ہونیوالے غریب ۔ مزدور طبقہ سے ہوتے ہیں ۔ گھر کے سر پرست اور خود کفیل ہوتے ہیں ایسے اچانک حادثہ پیش آنے کی وجہ سے ماؤں کیلئے گھروں میں چولہا جلانا ممکن نہیں رہتا ۔ بچوں کیلئے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ۔ علاج کیلئے فی الفور پیسے نہیں ہوتے ۔ لیکن یا محترم وزیر اعلیٰ صاحب کو اس حادثہ کی خبر تک نہیں ہوئی یا وزیراعلیٰ پنجاب اتنے زیادہ خدمت خلق میں مصروف ہیں کہ انہیں ایک عام سے اظہارِ ہمدردی کے بیانئیے کا بھی وقت نہیں مل سکا ۔ ایک طرف یہی جنوبی پنجاب کے سیاستدان سابقہ دورِِ حکومت کی اس خطے سے ہونے والی ناانصافیوں کے گلے شکوے کرتے نظر آتے تھے مگر اب عملاً جب اقتدار کی دیوی ان پر مہربان ہوئی تو یہاں کی عوام کو زبانی اظہارِ ہمدردی کے قابل بھی نہیں سمجھا ۔ سنا تھا کہ اقتدار کی دیوی اندھی اور بہری ہوتی ہے مگر پنجاب میں یہ دیوی اندھی اور بہری ہونے کے ساتھ گونگی بھی ہے۔