جو چاہے ، آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے
احسن بودلہ
سینیٹ الیکشن میں تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد چیئرمین سینیٹ کے امیدوار میر حاصل بزنجو سے جب ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ کے خلاف ووٹ دینے والے چودہ لوگ کون ہیں۔ تو انھوں نے برملا اس کا جواب دیا کہ وہ آئی ایس آئی ایس کے چیف جنرل فیض حمید کے لوگ تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بالکل پریشان نہیں ہیں۔ کیونکہ ہماری سیاست میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔
حاصل بزنجو صاحب نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ہماری سیاست میں ایسا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہاں پر اس سے پہلے کبھی ایک منتخب حکومت کو آئی جے آئی بنا کر ختم کردیا گیا اور کبھی کرپشن کے منترا پر اپنی ہی پارٹی کے صدر کو استعمال کر کے چلنے نہ دیا۔ کبھی کسی کو جنرل کی بات نہ ماننے کی سزا ان کو حکومت سے نکال کر جیل میں ڈال کر دی گئی اور کبھی نئی سیاسی جماعتیں بنا کر دوسری جماعتوں کے اراکین کو ڈرا دھمکا کر اس نئی جماعت میں شامل ہونے کو کہا گیا۔
اسی طرح کبھی انتخابات میں بھی دھاندلی کروا کر اپنی من پسند جماعت کو اقتدار میں لایا گیا ۔ یہ سب جس ادارے کی طرف سے پہلے کروایا جاتا تھا ۔ اس کا نام کوئی نہیں لیتا تھا۔ جو آج حاصل بزنجو صاحب نے سرِعام لے لیا ۔ اس لیے اگر آج کے سینیٹ کے انتخاب میں اگر پہلے چونسٹھ اراکین نے ہاتھ اٹھا کر اپوزیشن کی اپنی جماعتوں کو یقین دہانی کروائی اور ووٹنگ کے بعد وہ چونسٹھ سے پچاس ہو گئے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے ۔ کیونکہ اس پہلے بھی جب صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوایا گیا تھا تب بھی اسی طرح سے ہی ووٹ بدل گئے تھے۔
تب آصف زرداری صاحب نے اس کا کریڈٹ لیا تھا اور ایوان میں ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے لگے تھے۔ تب پیپلز پارٹی کے سب لوگ اس کو ضمیر کی آواز کہہ رہے تھےاور چیئرمین سینیٹ بننے کے بعد صادق سنجرانی صاحب نے سب سے پہلے بلاول بھٹو سے ملاقات کی تھی ۔اور آج بلاول بھٹو ، شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہو کر انہی صادق سنجرانی کے خلاف بول رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ وہ دھوکہ دینے والے سینیٹرز کے خلاف کاروائی کریں گے۔
تب عمران خان صاحب نےسینیٹ کےانتخاب کےلیے اس طرح کے طریقہِ کار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اور کے پی کے اسمبلی کے ان کی پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والے بیس اراکین کو اپنی پارٹی سے نکال دیا تھا۔ مگر اس انتخاب میں انھوں نے اسی طریقہِ کار کے مطابق صادق سنجرانی کو مطلوبہ ووٹ نہ ہونے پر بھی ڈٹ جانے کا کہا۔اور آج اسی طرح کے طرزِ عمل پر پاکستان تحریکِ انصاف کے لوگ اپوزیشن کے اراکین کے حکومتی اتحاد کو ووٹ دینے پر اسے ضمیر کی آواز قرار دے رہے ہیں۔
ضمیر کی آواز کے حوالے سے دو ہزار دو کے انتخابات کے بعد ایک دفعہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسمبلی میں یہ کہا تھا کہ لوگوں نے ضمیر کی آواز پر نہیں بلکہ جنرل ضمیر کی آواز پر ووٹ دیے ہیں۔ کیونکہ اُس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احتشام ضمیر تھے۔ تو اب کوئی مانے یا مانے صادق سنجرانی صاحب کے پہلے انتخاب میں ان کو ملنے والے ووٹ اور اس دفعہ کی تحریکِ عدم اعتماد میں انکو اپوزیشن اراکین کی طرف سے ملنے والے ووٹ کسی کے ضمیر کی آواز پر نہیں دیے گئے۔ بلکہ تب کے اور آج کے جنرل ضمیر کی آواز پر ہی دیے گئے جس کی طرف حاصل بزنجو صاحب نے اشارہ کیا ہے۔
اب بزنجو صاحب کے بیان پر آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور یہ کہہ رہے ہیں کہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کےلیے کسی ادارے پرکوئی الزام نہ لگایا جائے۔
تو حضور ہماری سیاسی تاریخ میں آپ کا وہ ادارہ اس طرح کی کاروائیوں کرتا رہا ہے جب تک آپ ایسا کرنا جاری رکھیں گے اور سیاست دانوں کو اپنا آلہِ کار بناتے رہیں گےتو آپ کا نام تو لیا جائے گا اور جب آپ یہ سب چھوڑ دیں گے اور یہاں پر سول بالادستی قائم ہو جائے گی تو نہ تو آپ کی طرف کوئی انگلی اٹھے گی اور نہ ہی آپ کو کوئی وضاحت دینے کی ضرورت پڑے گی ۔ باقی جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے۔