خان صاحب، برائے مہربانی اب یوٹرن نہیں

عاطف توقیر

آسیہ بی بی معاملے پر جس طرح سپریم کورٹ کی جانب سے جرات مندی اور اسلام کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے، جذباتی بنیادوں پر فیصلہ سنائے جانے کی بجائے قانونی اور منطقی انداز سے اس مقدمے کو ٹھیک سے سننے اور فیصلے کرنے سے دنیا بھر میں اسلام اور پاکستان کے تشخص میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان حکومت نے بھی اس فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے جس جرات مندی کا مظاہرہ کیا اور جس طرح پی ٹی آئی حکومت مذہبی انتہاپسندی کے جن کے سامنے کھڑی ہوئی، وہ لائق تحسین ہے۔

شدت پسندانہ رویوں کے خلاف پوری قوم کو متحد رہنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح فوج کی جانب سے بھی یہ موقف کہ وہ اس بارے میں حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر عمل درآمد کرے گی، ہوش مندانہ ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ مزید چیزوں کو بھی دیکھا جانا چاہیے۔ اس سے قبل عاطف میاں معاملے پر حکومتی فیصلے پر بھی مختلف مکاتبِ فکر کی جانب سے خیرمقدمی پیغامات ارسال کیے گئے تھے۔ فواد چوہدری صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں واضح انداز میں کہا تھا کہ پاکستانی قوم نے جن قوتوں کو ووٹ نہیں دے یا جن کے ووٹوں کی تعداد چند لاکھ ہے، وہ کروڑوں پاکستانیوں کی نمائندہ جماعتوں کے فیصلے تبدیل کرنے سے باز رہیں۔ تاہم چند ہی گھنٹوں کے بعد حکومت اس موقف سے پیچھے ہٹ گئی۔ احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے عاطف میاں کے حوالے سے اس اقلیتی برادری کی حالت زار پر تو خیر کیا فرق پڑنا تھا، مگر نتیجہ یہ نکلا کہ الٹا میڈیا پر مزید بحث، مساجد کے اسپیکروں سے مزید تشدد انگیزی کے بیانات اور عوامی سطح پر اس برادری سے مزید نفرت بڑھی۔ اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کی اقتصادی مشاورتی کونسل میں شامل دیگر دو فاضل ارکان نے بھی اپنے عہدے عہدے چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔

https://www.youtube.com/watch?v=ankL7nIAHBI

سادہ سی بات ہے کہ عمران خان کو یا تو عاطف میاں کو اس عہدے کے لیے نام زد ہی نہیں کرنا تھا اور اگر کر لیا تھا، تو پھر اس پر قائم بھی رہتے۔ مگر وہ قائم نہ رہے۔ یعنی معاشرتی طور پر ہمیں فائدے کی بجائے اس یوٹرن کا شدید نقصان ہو گیا۔

فیض آباد دھرنے کے وقت شاہد خاقان عباسی کی ن لیگی حکومت کا حال یہ تھا کہ اس نے پولیس کو آپریشن کر کے فیض آباد انٹرچینچ خالی کرانی کا حکم دیا، تو پولیس مشتعل ہجوم سے نمٹ نہ پائی اور آپریشن روکنا پڑا۔ اس آپریشن میں کئی افراد زخمی ہو گئے۔ ایسے میں جرنیل مذاکرات میں ثالث اور ضامن بن گئے اور معاملہ یہ نکلا کہ حکومت نے نہ صرف مولویوں کے مطالبات مان لیے، بلکہ ریاستی رٹ پر بھی سوالات اٹھا دیے۔ اس دھرنے کے اختتام پر تمام شرکا ء پر قائم کردہ مقدمات ختم ہو گئے جب کہ ایک فوجی افسر ان مظاہرین میں ہزار ہزار کے نوٹ یہ کہہ کر تقسیم کرتے رہے کہ یہ ان مظاہرین کو منتشر کرنے کا ’پرامن‘ راستہ تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن تھا، جب مشتعل جتھے کے سامنے ریاست ڈھیر ہو گئی اور مستقبل میں ایسے جتھوں کے لیے اسلام آباد اور دستوری کی تباہی کے راستے کھول دیے گئے۔

آسیہ بی بی معاملے پر مجھے سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ اگر اس موضوع پر بھی عمران خان نے روایتی ‘یوٹرن‘ لیا، تو یہ ایک بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ریاست مکمل طور پر اپنے آپ کو ان مشتعل افراد کے ہاتھوں یرغمال بنا چکی ہے اور ملکی ادارے بے بس ہیں۔ بنانا ریپبلک اور ناکام ریاست اسی کا نام ہے۔

اگر ایسا ہوا تو پاکستان میں شدت پسندی میں مزید اضافہ ہو گا اور شدت پسند عناصر کو ایک واضح پیغام جائے گا کہ وہ جب چاہے ریاست کو یرغمال بنا سکتے ہیں۔ اس ملک کی گلیوں میں اس سے قبل پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو اسی معاملے پر قتل کیا جا چکا ہے۔ ممتاز قادری کا مزار بن چکا ہے اور پی ٹی آئی کے وزیراطلاعات و نشریات فیاض الحسن کی وہ ویڈیو بھی سب کے سامنے ہے، جس میں وہ ریاست کے ہاتھوں سزائے موت پانے والے ممتاز قادری کی قبر پر عقیدت سے کھڑے نعتیں پڑھ رہے ہیں۔

ایک اور معاملہ یہ ہے کہ اگر ایسے میں کوئی اہم شخص کو خود نہ خواستہ قتل کر دیا گیا یا کسی غیرملکی ایجنسی نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے لیے تشدد کا کوئی واقعہ برپا کر دیا، تو اس کے نتیجے میں لگنے والی آگ معمولی نہیں ہو گی۔

خادم رضوی معاملہ یہ واضح کرتا ہے کہ ریاست کو اب شدت پسندی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے، جس میں نصاب تعلیم سے شروع کر کے میڈیا تک اور انصاف کے نظام میں بہتری سے لے کر روزگار کے مواقع تک بہت سے شعبوں میں کام کرنا ہو گا۔ پاکستان میں شدت پسندی سے مربوط چیزیں آپس میں جڑی ہیں۔ یہ اس ملک میں پھیلی اس فرقہ واریت اور شدت پسندی کا واحد حل ہے۔ جس طریقے سے یہ شدت پسندی پیدا کی گئی ہے، ختم بھی اسی طریقے سے ہو گی۔ بدقسمتی سے اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔

ضیاالحق کے دور میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے آج پھٹ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ماضی میں کسی سیاسی حکومت نے اس جانب سنجیدہ اقدامات نہیں کئے، دوسری جانب ’لبرل مشرف‘ اس شدت پسندی میں مزید اضافے کا سبب بنے۔ حالات یہ ہیں کہ اگر ہم آج پوری سچائی اور ملکی مفاد میں شدت پسندی کی سرکوبی کے لیے اقدامات شروع کریں، تو اس کا نتیجہ سامنے آنے میں کم از کم دو دہائیاں لگیں گی۔ ہم نہ سہی ہمارے بچے ہی اگر محفوظ ہو گئی، تو سمجھیے ہماری محنت اکارت نہیں گئی۔ دوسری صورت میں ہمیں ایک بڑی تباہی اور مزید تقسیم سے کوئی نہیں بچا سکتا۔