روٹی انسان کھا جاتی ہے
شیزا نذیر
پچھلے سال مَیں کھیوڑا سالٹ مائن دیکھنے گئی۔ ہمارے گائیڈ بشیر صاحب نے بہت اچھی طرح ہمیں گائیڈ کیا۔ جب ہم مائن کے شیش محل میں پہنچے (مائن میں مختلف حصوں کے مختلف نام رکھ دیئے گئے ہیں، جیسے کہ مری مال روڈ، شیش محل، پل سراط وغیرہ)، جو کہ مائن کا مرکزی حصہ ہے، تو بشیر صاحب نے بتایا یہ مائن کی سب سے زیادہ فائن جگہ ہے اور یہاں سے کھانے کے لئے نمک نکالا جاتا ہے۔ بشیر صاحب کہنے لگے کہ ’’ساری عمر نمک آپ کے پیٹ میں رہا لیکن آج آپ نمک کے پیٹ میں ہیں‘‘۔ بشیر صاحب کا یہ کہنا تھا کہ مجھے بابا نجمی کا ایک شعر یاد آ گیا
توں کی جانے یار امیرا
روٹی بندہ کھا جاندی اے
(اے امیر دوست تم کیا جانو کہ روٹی انسان کو کھا جاتی ہے)
بشیر صاحب کی بات سُن کر تو بس اکسائیٹمنٹ ہوئی تھی کہ ہم نمک کے پیٹ میں ہیں لیکن بابا نجمی کا شعر سُن کر انسانیت پر مایوسی ہوتی ہے۔ آپ نے اکثر بوڑھی ہڈیوں کے ڈھانچوں کو بازاروں میں کچھ بیچتے دیکھا ہو گا۔ مَیں جب بھی اِن بزرگوں کو دیکھتی ہوں تو یقین ہو جاتا ہے کہ واقعی اِن کو تو روٹی کھا گئی۔
ہمارے ملک میں دو وقت کی روٹی کے لئے ساری عمر محنت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چند دِن پہلے ثمینہ سندھو روٹی کی خاطر اِس جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ ہمارے معاشرے میں بے حسی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ایک چھے سات ماہ کی حاملہ خاتون روٹی کے لئے کام کر رہی تھی۔
ایک بار منٹو کی ایک تحریر پڑھی جس میں منٹو نے کسی حاملہ خاتون کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ بڑی پُر وقار لگ رہی تھی جیسے کہ حاملہ خواتین لگا کرتی ہیں۔ جب ثمنینہ سندھو کے بارے میں سُنا تو اِس حالت میں اُس کی باوقار شخصیحت میری آنکھوں کے سامنے آ گئی لیکن ہمارے معاشرے کے ناسور، دولت اور نشے میں دھت ایک ظالم نے اُس کی اور اُس کے بچے کی جان لے لی محض اِس بات پر کہ وہ گانے کے ساتھ ٹھمکا بھی لگائے۔
واقعہ یوں ہوا کہ ثمنینہ سندھو ایک مقامی گلوکارا تھی جو کسی تقریب میں بطور گلوکارا اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھی کہ کسی رئیس زادے نے اُسے گانے کے ساتھ ناچ کرنے کے لئے بھی کہا جس پر ثمینہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ حاملہ ہے اور اِس حالت میں ناچ نہیں سکتی۔ رئیس نے دھمکایا کہ ناچو یا گولی کھانے کے لئے تیار ہو جاو۔ ثمینہ تو روٹی کھانے کے لئے یہ سب کر رہی تھی، گولی کھانے کے لئے ۔ اور اِس کے لئے ثمینہ اِسی حالت میں ناچنے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوئی لیکن رئیس زادے کو شاید ناچ پسند نہ آیا تو اُس نے گولی مار دی۔ جس روٹی کو کھانے کے لئے وہ حاملہ حالت میں گھر سے نکلی تھی وہی روٹی اُسے کھا گئی۔
دولت کی یہ تقسیم مجھے اکثر پریشانی میں متبلا کر دیتی ہے کہ ہمارا خالق اِس بات کی کیسے اجازت دے سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس تو کھانے کے لئے ضرورت سے زیادہ ہے اور کچھ کو روٹی ہی کھا رہی ہے۔ مَیں جب بھی اِس کشکمش میں ہوتی ہوں تو مجھے اشفاق احمد کی ایک بات یاد آ جاتی ہے جو اُنہوں نے ’’زاویہ‘‘ میں لکھی تھی۔
اشفاق احمد کہتے ہیں کہ اُن کی خالہ کے مالی حالات ٹھیک نہیں تھے۔ خالہ کے بچے زیادہ پڑھ لکھ نہ سکے تو نوکریاں بھی اچھی نہ ملیں۔ اشفاق احمد کے پاس اُس وقت اچھی نوکری تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں اپنی خالہ کو اپنی تنخواہ میں سے کچھ رقم دے دیا کرتا تھا۔ اِس کے پیچھے اُن یہ خیال تھا کہ خدا انسانوں کو مہیا کرتا ہے، کسی کو زیادہ اور کسی کو کم۔ جس کو زیادہ دیتا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کم آمدنی والوں میں تقسیم کرے کیونکہ خدا صرف مہیا کرتا ہے، تقسیم کرنے کی ذمے داری اُس نے انسان کے سپرد کی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ چونکہ مَیں زیادہ کماتا تھا تو خدا نے میری خالہ کی زمے داری مجھے سونپی کہ مَیں تقیسم کروں کیونکہ وہ مجھے اُن کے حصے کا بھی مہیا کرتا تھا۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ تقسیم کی اِس ذمے داری کو کیسے پورا کرتا ہے۔
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم انسان کم از کم اپنے ارد گرد رہنے والوں کے لئے ہی ایسا سوچنے لگیں تو کسی ثمینہ کو روٹی نہ کھائے۔