کیا مطلب

صادق صبا

میرے ایک دوست ہیں، اس کو ایک عجیب بیماری لاحق ہے، جس کا علاج اس کے اپنے بھائی بندوں کو شاید سمجھ آئے لیکن کم از کم ڈاکٹروں کو تو نہیں آتی اور جتنے ایڈوانس ڈاکٹر علاج ڈھونڈنے آئے، سبھی کورے ثابت ھوئے۔ یہ اچھوتی بیماری میرے اچھوتے دوست کو نقصان سے زیادہ فائدہ پہنچا چکی ہے۔ تبھی تو اس کے مرضِ لاعلاج سے مریض سے زیادہ عیادت مند پریشان ہیں بلکہ نوبت یہاں پہنچتی ہے کہ بال نوچنے کو مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر میں سادہ الفاظ میں اس کا مرض بیان کروں تو یہ کہ وہ گجنی بن جاتے ہیں۔ انہیں ھر چار سال بعد سب کچھ یاد آتا ہے کہ ھمارا نظامِ تعلیم تھرڈ کلاس ہے، صحت و صفائی کا جنازہ نکل چکا ہے، بیروزگاری ناقابل برداشت ہے، مہنگاہی غریب کی کمر بشمول سر توڑ چکی ہے، لڑکیوں کا کالج نہیں ہے، لڑکوں کی یونیورسٹی نہیں ہے، بشیر کا گھر گرنے والا ہے اور مستری نبو مہلک بیماری سے زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ، مگر باقی چار سال یہ پولیٹیکل ہائیبرنیٹڈ ہومو سیپئن بس ایک ہی فقرے کا سارہ لیتا ہے ”کیا مطلب“؟

کل ہی کی بات ہےمیں نے اس سے پوچھا شہر میں پانی ہے نہ صحت و صفائی، نہ نظام تعلیم کی مڑی ہوئی دم کو سیدھا کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ نہ بیروزگاری کے دیو کو گنڈہ تعویز یا دم وغیرہ کرکے بوتل میں ڈالنے کا پلان مرتب کیا جا رہا ہے۔ آخر آپ لوگ کر کیا رہے ہیں۔ میرے اس طویل بھاشن کا محض یہ مختصر جواب ملا کیا مطلب؟

خیر دوست تھا اور ایسے ”جان افزاء “ مرض میں مبتلا تھا تو میں ہی برداشت نا کرتا تو کون کرتا؟ میں نے کہا یہ غریب عوام آپ لوگوں کو سر پہ بٹھاتے ہیں۔ آپ کے مخالفین کے خلاف نعرے بازی کرتے ہیں کہ ”گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو، گو نواز گو، رو عمران رو وغیرہ وغیرہ جیسے فلک شگاف نعروں سے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر، جلسوں جلوسوں میں پیش پیش ہوتے ہیں گرمی ہو سردی ہر مصیبت ہر موسم جھیلتے ہیں۔ لیکن آپ نے ان کو کیا دیا ہے؟‘‘
اس نے بھوئیں سکڑائیں اور بے فکرانہ انداز میں گویا ھوا”کیا مطلب“؟ میں نے کہا ابے پیدائشی بہرے یہ عوام کے ووٹ کو لے کر چار چار سال آپ کہاں ہائیبرڈینشن کرتے ہیں؟

خدا کا شکر کہ بیچارے کو ووٹ کا لفظ کان میں پڑھ گیا اور سیریبرئیم میں ٹک سے جا کے فٹ ھوگیا کہ بیچارہ خوشی سے گویا ھوا” اچھا ووٹ! یہ عوام کو بیوقوف بنانے کی ڈگری ہے۔ جیسے وہ ہوتی ہے نا کالج یونیورسٹی کا ڈگری، یہ باکمال و پہنچی ہوئی سیاستدان کی ڈگری ہے۔‘‘

میرا دل کر رہا تھا اس پر شیر جیسا جھپٹا مارو کہ مقدس عوامی ووٹ کی تضحیک کر رہا ہے مگر کچھ بدنامی اور کچھ مارے ڈر کے صبر اختیار کی اور کہا، ۔ارے آپ لوگ اتنے بھی بے وفا نہ بنیں، اتنے بھی لاپروائی نا کریں۔ آپ کو اللّہ سے ڈر نہیں لگتا کہ وہ آپ سے پوچھے گا کہ بھائی پتھر، بجری اور خالص ڈامر کی جگہ آپ نے مٹی اور سستی ڈامر سے کیوں ایسی سڑک بنائی کہ جس پہ چلو تو سڑک بھی آپ جوتوں کے ہمراہ آپ کے گھر تک آتی ہے اور رستے کے بجائے گاڑیوں کے ٹائیروں اور انسانی چپلوں کی میک اپ بن جاتی ہے، آپ نہیں ڈرتے کہ پانی کے نام پہ زہر آلود گٹر لوگوں کو سپلائی کرواتے ہو جو ان کو قبر کی راہ دکھاتا ہے۔ آپ نہیں ڈرتے کہ ہسپتال کی حالت درست نہ کرکے کلینکوں کی رنگت بڑھاتے ھو؟
> تو جناب کا معصومانہ جواب تھا کیا مطلب؟
تو میرے صبر کے زور آور اپس نے ضبط کے کی تمام زنجیریں تھوڑ دیں۔ تبھی تو میرے دماغ خانہ خراب نے کراچی سے لیکر لاھور کی ہیرامنڈی تک اور آج سے لیکر انگریز کے دور کے آسام و کلکتہ کی مظلوم و ظالم سبھی بیسواؤں سے عمدہ قسم کی گرانٹیڈ گالیاں لیکر، بحر وقافیہ کی سانچوں میں ڈال کر تھوپوں کی شکل میں اسکو اکیس کے بجائے نا جانے کتنےتھوپوں کی سلامی پیش کی مگر تعجب ہے کہ صاحب ٹھس سے مس نا ھوئے اور بڑی اطمینان سے استفسار کیا، کیا مطلب؟

میرے اوسان خطا ھوئے تبھی میں نے منہ پھٹے ٹائر کی طرح پھاڑ کے کہا ابے! تم انسان ھو کہ پتھر؟ خدا کا شکر کہ میرا یہ زور آور نعرہ اسکے کان کے پردے کو پار کرنے میں کامیاب ھوا کہ دشمن نما دوست متوجہ ھوئے” میں انسان نہیں سیاستدان ھوں اور پتھر اس سے تو ھمارا پرانا رشتہ تھا پر اب شاید کچھ لوگوں کو پتھر پر رحم آگیا کہ انھوں نے ھمیں پتھر کے قابل نا سمجھا اور جوتا مار کر رسمِ کہن کو زندہ رکھا جو سلطنت روم کے دور سے چلی آ رہی ہے، یہ لوگ جوتے کو تقدس فراہم کررہے ہیکہ اسے پاؤں سے سر پہ بٹھایا ھوا ہے یا کبھی کبھار سینے پہ تمغہ بے عزتی بناکر سجاتے ہیں۔ھمیں مجبورا جوتا۔۔۔انڈے،ڈنڈے اور ٹماٹر کی طرح مہنگا کروانا پڑیگا۔ان کہ ساتھ آپ نے یہی کیا۔ھمیں مار کر ان کو تکریم بخشی۔ آپ کا عوام ظالم ہے ظالم اسی لئے چار چار سال ھم ان سے بچتے ہیں، یہ تو مجبوری ہے کہ آخری سال انکی تھوڑی حال پرسی ھو اور ھماری سواگت۔ اس کے بعد میرے منہ سے نکلا کیا مطلب؟؟؟؟