سانحہ فلاں فلاں

وقاص احمد

تصویر کا دوسرا رخ کیا ہے؟ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اتنے تضادات و اختلافات کا شکار ہے کہ اگر میں محاورتاً یہ کہوں کہ 22 کروڑ لوگوں کے اس ملک میں 22 کروڑ طرح کی مختلف سوچیں، مختلف نظریات ابل رہے ہیں تو غالباً اتنا غلط بھی نہیں ہوگا۔ لیکن ایک بات مجھ سمیت ہم سب میں مشترک ہے کہ ہم ایک ری ایکٹو، انتہائی جذباتی، چھوٹے حوصلے، چھوٹے ترین ظرف انتہائی کمزور یاداشت اور کمزور ترین تجزیاتی مہارت کے حامل لوگ ہیں۔ ایک اور قدر جو ہم میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی، بھولے سے بھی، غلطی سے بھی اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ ہماری معاملہ فہمی، صورتحال کے درست تجزیے اور درست سوال اٹھانے کی صلاحیت خوفناک حد تک مشکوک ہے کیونکہ ہم سب کی آنکھوں پر اپنے اپنے خودساختہ “نظریے” کی عینک چڑھی ہے۔ اور اس عینک کا کمال یہ ہے کہ واقعہ چاہے کوئی بھی ہو، ہم اسے گھسیٹ گھساٹ کر اپنے فریم آف مائنڈ میں موجود نظریہ کے ڈبے میں ٹھونس دیتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ہمارے ملک میں بھانت بھانت کے نظریات کی بہار ہے۔ یہ نظریات سیاسی سے لیکر سماجی اور مذہبی سے لیکر معاشرتی تک کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ میں ذیل میں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں جس کی مدد سے میں اپنے مقدمہ کو آسان طریقے سے سمجھانے کی کوشش کروں گا۔ مثلاً ہمارے ملک میں بارشیں طوفان زلزلے زیادہ ہوجائیں تو ایک مخصوص مذہبی طبقہ اس کو قرب قیامت کی نشانیاں اور لوگوں کے اعمال کی سزا کہتا ہے۔

لیکن وہی مذہبی طبقے چند مختلف حالات میں بارشوں، ژالہ باری کے طوفان وغیرہ کو عادل حکمران آنے کی نشانی کہتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ بارشیں اور برف باری کے طوفان تو عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے وجہ سے پوری دنیا میں بڑھ گئے ہیں، مذید برآں کہ خلفاء راشدین کے دور میں ہونے والی خشک سالی اور قحط کو مذکورہ بالا تشریح کے حساب سے کیسا دیکھا جائے؟

مثلاً ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ ہے جس کا مائنڈ سیٹ ایک جملے میں یوں بیان ہوتا ہے کہ “جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکہ اور یہودی کروا رہے ہیں”۔
ایک طبقہ ایسا ہے جو سمجھتا ہے پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ کرپٹ سیاستدان ہیں۔ ایک طبقہ ایسا ہے جس کے خیال میں پاکستان کی ہر برائی کی ماں فوج کی مداخلت ہے۔ ایک طبقہ اپنی تشریح شدہ شریعت کے نفاذ کو ملک کے تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے
دوسرا طبقہ سوشلزم اور کیمونزم میں عوام کی فلاح سمجھتا ہے۔ ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ “امت مسلمہ” کی زبوں حالی کی وجہ خلافت کا نا ہونا ہے۔ دوسرے طبقے کے خیال میں جمہوریت ہی وقت کی آواز ہے۔

اس طرح کے نظریات کا انبار لگا ہے۔ ان لوگوں کے سامنے آپ کوئی بھی مسئلہ پیش کریں یہ اس مسئلے کو فوراً گھسیٹ کر اپنے نظریاتی چوکھٹے میں فٹ کردیں گے۔ اب آتا ہوں اصل مدعا کی طرف۔ حال ہی میں ساہیوال میں ایک روح فرسا واقعہ ہوا۔ میں نے اس واقعہ پر نا کچھ لکھا یہاں تک کہ کوئی یک سطری پوسٹ تک ناں کی۔ اس سے بہت پہلے زینب والے معاملے پر بھی میں نے اپنے لب سیئے رکھے کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میں بھی بظاہر ہمدردی سے چھلکتی جذباتی پوسٹ یا کالم لکھ کر مقتولین کی لاش کی آڑ میں بیٹھ کر مخالفین کا شکار کروں۔ آپ آج دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں۔ ہم نے بحیثیت معاشرہ یا ہمارے میڈیا نے بحیثیت ادارہ یا ہمارے تمام ملکی اداروں بشمول سیاستدانوں نے کیا ملک میں گزرے کسی سانحے کے اصل محرکات، وجوہات، ذمہ داران یا سدباب پر کوئی گفتگو کی یا پھر ہم نے صرف ان کی آڑ لیکر اپنے مخالفین کا شکار کیا؟ تین چار واقعات کی مثالیں اٹھا لیتے ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن سے شروع کریں، دھرنا ہوا، احتجاج ہوا، استعفے مانگے گئے، قصاص طلب ہوئے، لاشیں دکھا کر اور ورثاء کی شکلیں دکھا کر ہم نے خوب سیاسی و مالی فوائد سمیٹے۔ مگر کیا کسی نے اس جانب سوال اٹھانے کی کوشش کی کہ واقعہ کے محرکات کیا تھے؟ کیا یہ اتنا ہی سادہ ہے کہ پولیس دو بیرئیر اٹھانے وہا گئی اور وہاں بندے مرنا شروع ہوگئے؟

آپ سانحہ اے پی ایس کی مثال لیں۔ ہم نے “دشمن” کو بھی خوب کوسا، ہم نے صوبائی حکومت پر نااہلی کے الزامات لگائے، صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت پر جوابی الزام لگائے، ہم نے اپنی ڈی پیز ان بچوں کی تصویروں سے سجا لیں، ہم نے “دشمن کے بچوں کو پڑھانے” کا عزم بھی کر لیا مگر اس ساری ہاہوکار میں کسی دانشور کے دماغ میں یہ سوال کیوں نہیں اٹھا کہ اتنا بڑا سکیورٹی لیپس کیونکر ہوا۔ نمبر ون کدھر سو رہی تھی، چوکیاں، پوسٹیں، خاردار تاریں کیوں ناں کام کر سکیں اور کل کلاں ایسے واقعے کو کیسے روکا جائے گا؟

زینب کا واقعہ لے لیں۔ ہم نے غیر ذمہ داری کی انتہا کرتے ہوئے دو حکومتی ممبران اسمبلی کو انٹرنیشنل پورنو گرافی گینگ کا حصہ قرار دیا، ہم نے 47 اکاؤنٹس کا جھوٹ پھیلایا، ہم نے بھاگ بھاگ کر کیمرے کے سامنے بچی کی نماز جنازہ ادا کی، ہم نے حکومت کو خوب رگیدا، ہمارے سووموٹو چیپ جسٹس نے تو واقعے پر اپنے نمبر ٹانگے ہی مگر ہمارے آرمی چیف بھی موقع پا کر پبلسٹی حاصل کرنے کے چکر میں پڑے۔ ہم نے فیس بکی اور ٹوئٹری مخلوق کو ٹرینڈز بنانے پر لگا دیا اور وہ ہر ممکن حربہ استعمال کیا جس سے اس بچی کی لاش سے سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ مگر کیا ہم میں سے کسی نے یہ سوال اٹھایا کہ ہمارے معاشرے میں یہ کراہت آمیز جرم کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟ ہماری چھوٹی چھوٹی بچیاں کیوں محفوظ نہیں رہیں؟ بظاہر مذہبی حلیہ بنا کر پھرنے والے لوگ ایسے درندے کیوں نکل رہے ہیں؟ کیا ہم نے بحیثیت معاشرہ خود احتسابی کے بارے میں ایک لفظ بھی سوچا؟ نہیں۔ ہم سانپ کی لکیر پیٹنے والی قوم ہیں، سانپ کو روکنے/مارنے کا طریقہ ہم سے مت پوچھو۔ میرے خیال میں تو اس سانحہ پر سیاسی کھیل کھیلنے والے لوگوں کا جرم کسی بھی صورت اس مجرم سے کم نہیں جو اس واقعہ میں ملوث تھا۔

آپ ختم نبوت والے واقعے اور مولوی رضوی کے کردار کو دیکھ لیں۔ مولوی رضوی صاحب ہمارے معاشرے کی اصل شکل ہیں۔ حقیقت میں یہ ہماری اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک نان ایشو کو چند لوگوں نے مذہبی ایشو بنایا۔ اور اسی جعلی مذہبی ایشو کو گدھ نما سیاسی لیڈران نے سیاسی طور پر کیش کروایا۔ کفر کے فتوے بنٹے، لوگوں کو تجدید اسلام اور تجدید نکاح کے حکمنامے جاری ہوئے، پوری قوم ایک ایسے مسئلہ پر ہسٹیریا میں مبتلا ہوگئی جو مسئلہ موجود ہی نہیں تھا۔ فرنٹ پر مولوی رضوی اور ان کے جملہ مریدین جیسے سادہ لوح تھے اور پیچھے کچھ اور کہانی۔ فیض آباد پل پر ریاست پاکستان کا کھلے عام گینگ ریپ ہوا اور کچھ لے دے کر کے معاملہ ختم ہوا۔ رضوی صاحب اپنی سادہ لوحی میں اس تمام واقعے کو اپنا ذاتی کرشمہ سمجھ بیٹھے اور نتیجتاً آج ویسی ہی حرکت دوبارہ کرنے کے جرم میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہوئی کیا ہے۔ فرض کریں کہ وہ سوال جو 5-6 مہینے کی تاخیر کے بعد آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے میں اٹھائے گئے ہیں اگر یہ فیصلہ، یہ سوال اس واقعے کے فوراً بعد اٹھائے جاتے تو کیا کسی مولوی رضوی جیسے کی ہمت تھی کہ ریاست کو دوسری دفعہ للکارتا؟ مگر بات وہی، ہم درست سوال اور درست فیصلے درست ٹائم پر کرنے کے اہل ہی نہیں۔

اب آپ سانحہ ساہیوال کو دیکھ لیں۔ ہم نے ان یتیم بچوں کی ویڈیوز اور تصاویر بنا کر جذباتی پوسٹوں کے انبار لگا دیں۔ ٹی وی چینل چیخ چنگاڑ میں مصروف ہوگئے، وزیراعظم صاحب کے استعفیٰ کا مطالبہ اور حکومت کی نااہلی پر تقریریں شروع ہوگئیں۔ سوشل میڈیا پر پٹواری حساب برابر کرنے کے لیے یوتھیوں پر ٹوٹ پڑے اور یوتھیے ان کو سانحہ ماڈل ٹاؤن یاد کروا کر اس گھناونے واقعے کی پردہ پوشی کرنے میں مصروف ہوگئے۔ لیکن اس ساری واردات میں کوئی “بے باک اور نڈر” اینکر یہ سوال پوچھنا بھول گیا کہ وہ کونسی سیکرٹ ایجنسی تھی جس کی اطلاع پر یہ کاروائی ہوئی۔ ایسے تو نہیں ہوگا ناں کہ انسداد دھشتگردی کی فورس ایک دن صبح اٹھی اور اس کا بندے مارنے کا پلان بن گیا سو مار ڈالے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ ان کو بتایا گیا ہو کہ انتہائی خطرناک اور مطلوب دھشتگرد بچوں کی ڈھال بنا کر کسی جگہ بہت بڑی واردات کرنے جارہا ہے جس میں درجنوں جانیں جا سکتی ہیں۔ اب ایسی اطلاع کے بعد آپ کیا توقع کرتے ہیں؟ پولیس نے اپنی کمال نالائقی اور نااہلی کے ساتھ زخمی کر کے بچوں کو سائیڈ پر کیا اور باقی سب بھون ڈالے۔ اب آپ وزیر اعلیٰ پنجاب کو کوسیں، وزیراعظم کو بددعا دیں، شہباز شریف کی “سیاسی پولیس” پر الزام لگائیں یا جو مرضی کہہ لیں۔ جب تک اب واقعے کے واحد محرک پر سوال نہیں اٹھائیں گے باقی سب بکواس ہے۔

ہم ایک گلا سڑا، منافق، بے شرم، بے حس اور خود غرض قسم کا معاشرہ ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن گزر گیا، سانحہ اے پی ایس بھی یادوں سے محو ہوگیا، زینب کی تصویر بھی ڈی پی سے اتر گئی اور صرف دو ہفتوں کے اندر اندر سانحہ ساہیوال پر اٹھنے والا جذباتی ابال بھی ٹھنڈا پڑ گیا اور اب سب مل کر مستقبل کی طرف اس امید سے دیکھ رہے ہیں کہ کاش اس دفعہ ایسا واقعہ ہو کہ میں اپنے مخالف فرقہ یا جماعت کی ایسی کی تیسی پھیر سکوں۔ ہم لاشوں کے منتظر لوگ ہیں، ہم سانحات کے منتظر لوگ ہیں، ہم حادثات کے منتظر لوگ ہیں۔ ہمارے لیے متاثرین سے زیادہ متاثرین کی تصاویر اور ویڈیوز اہم ہوتی ہیں، ہمارے لیے سانحات سے زیادہ اس سانحے اٹھائے جانے والے ممکنہ مالی، مذہبی اور سیاسی فوائد اہم ہیں۔ ہمارے لیے جرم کی وجوہات سے زیادہ یہ اہم ہے کہ کس طرح جرم کا تعلق کسی نا کسی طریقے سے اپنے مخالف کے ساتھ جوڑا جاسکے۔ ہماری سوسائٹی ہر طرح کے اخلاقی لحاظ سے اندر سے دیمک زدہ کھوکھلی ہے اور یہ اندر ہی اندر گھلتی جارہی ہے۔ علامہ اقبال نے نجانے کس ترنگ میں کہا تھا کہ “تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی”۔ میں تو اپنے آپ کو اس بات پر قائل پاتا ہوں کہ علامہ صاحب نے اس شعر میں ہمیں ہی مخاطب کیا تھا۔