سیاسی ایمان، سیاسی قیدی اور سیاسی تبلیغ

عاطف توقیر

یہ عیدِ قرباں کئی اعتبار سے ماضی کے مقابلے میں عجیب رنگ لیے ہوئے ہے۔ ایک طرف کشمیر کی حیثیت کے بھارتی فیصلے کے بعد جنت نظیر وادی جیل میں تبدیل ہے، دوسری جانب ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کی سال گرہ ہے اور ساتھ ہی ملک بھر میں آمرانہ دور کی روایت پھر سے زندہ ہو چکی ہے کہ سیاسی مخالفین کو جھوٹے پرچے درج کروا کر جیلوں میں ڈال دو۔

موجودہ حکومت کے آمرانہ اور ملک میں غیراعلانیہ مارشل لا کا اس سے بڑھ کر اظہار کیا ہو گا کہ ایک طرف تو ہر وہ شخص جو حکومت کا ناقد ہے، خوف محسوس کر رہا ہے، حکومت کا ہر ناقد صحافی لفافہ قرار دیا جاتا ہے، ہر سیاسی مخالف کرپٹ قرار دیا جا چکا ہے، انسانی اور بنیادی دستوری حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والا ہر رہنما غدار اور ایجنٹ قرار دے کر جیلوں میں ڈالا جا چکا ہے، ہر آزاد فیصلے دینے والا جج اس وقت اپنی صفائیاں دینے میں مصروف ہے اور تباہی کے اس ماحول میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔

ہمارے ہاں روایت یہ رہی ہے کہ ریاست کی جانب سے جو بیان جاری ہو جائے، اس پر کوئی سوال کیے بغیر اس بات پر ایمان لانا ہوتا ہے، کوئی سوال کرے، تو پہلا فتویٰ ایوان حاکم سے جاری ہوتا ہے کہ یہ شخص غدار یا غیرملکی ایجنٹ ہے۔

پھر ایمان لانا ہی کافی نہیں، ریاستی روش یہ ہے کہ بغیر سوال کیے جو کچھ سیکھا ہے، اسے واحد درست مان کے ہر اس شخص سے جھگڑنا ہے جو اسے درست نہیں مانتا یا سوال کرتا ہے ۔

ہمیں بتایا گیا ہے کہ نواز شریف سمیت اپوزیشن کے تمام رہنما مکمل طور پر کرپٹ ہیں۔ یہ سوال کرنے کی گنجائش نہیں کہ اگر ایسا ہے، تو پھر اتنے اتنے طویل مقدمات کیوں چل رہے ہیں؟ ریمانڈ پر ریمانڈ لیے جانے کی ضرورت کیا ہے؟ ثبوت کہاں ہیں؟ ٹی وی مہم کی بجائے واضح ثبوت عدالت میں پیش کیوں نہیں کرتے؟

ہمیں بتایا گیا کہ رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے پندرہ کلو ہیروئن نکل آئی ہے۔ مگر یہ سوال کرنے کی اجازت نہیں کہ ثبوت کہاں ہیں؟ کیوں اب تک معاملہ ریمانڈ پر چل رہا ہے؟ الزام لگانے والے عدالت میں ٹھوس ثبوت فراہم کیوں نہیں کر رہے؟

ہمیں بتایا گیا ہے کہ محسن داوڑ اور علی وزیر نے فوجی چوکی پر حملہ کیا۔ یہ پوچھنے کی اجازت نہیں ہے کہ کیا اس معاملے کی کوئی تحقیقات ہوئیں؟ کیا عدالت میں ثبوت پیش کیے گئے؟ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اہلکاروں کو اس واقعے میں زخمی ہونے والوں سے ملنے سے کیوں روکا گیا؟

ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کرپٹ ہیں۔ مگر یہ بتانے کو کوئی تیار نہیں کہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب تو وہ دے بھی چکے۔ پھر وہاں معاملہ نہ بن پایا تو ان پر اداروں کی تضحیک کا الزام عائد کر دیا گیا؟ ہم اس پر بھی ایمان لے آئے، یہ نہیں پوچھ پائے کہ اداروں کی تضحیک کیا اور کہاں ہوئی؟ کیا عدالتی فیصلے میں آئی ایس آئی سے یہ کہنا کہ وہ دستور کے دائرے میں رہ کر فرائض انجام دے، خفیہ ادارے کی توہین ہے؟ کیا فیصلے میں یہ کہنا کہ فوج سیاسی امور سے فاصلہ اختیار کرے، فوج کی توہین کے زمرے میں آتاہے؟

یہ ایک دو معاملات نہیں، بلکہ اب تک میری نگاہ سے جو جو معاملہ گزرا ہے، مجھے کہیں اس میں سوال کی جگہ دکھائی نہیں دی۔ یعنی جیسے کوئی بادشاہ حکم صادر کر دے اور رعایا اسے بلا چوں چراں مان لے، ویسے ہی حالات اس وقت ہمارے ہیں، پنڈی میں چند جرنیل طے کرتے ہیں تو سیاست دانوں سے لے کر صحافیوں تک اور ججوں سے لے کر عوام تک، سبھی سر جھکا کر اس پر ایمان لے آتے ہیں۔

پاکستان میں جب جب آمریتیں رہیں، ہر ایسے دور میں مخالفین کو پکڑ کر اپنی مرضی کے پرچے بنائے جاتے رہے۔ اور ہم ان پرچوں کو آسمانی صحفیہ سمجھ کر ایمان لاتے رہے۔ مادر ملت تک غیرملکی ایجنٹ پکارا جاتا رہا اور ہم اندر ہی اندر سمجھتے رہے شاید جنرل ایوب سچ ہی نہ بول رہا ہو۔ جس روز ملک دو لخت ہوا، اس روز پاکستانی اخباروں میں جنرل نیازی کا بیان تھا کہ ہم جنگ جیت رہے ہیں۔ جس وقت جنرل نیازی وہاں ہتھار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کر رہے تھے، اس وقت ہم پاکستان میں فتح کے گیت گنگنا رہے تھے۔

آمریتوں میں چوں کہ کوئی دستور، کوئی ضابطہ، کوئی عدالت، کوئی قانون اور کوئی بنیادی انسانی حق موجود ہی نہیں ہوتا، اس لیے ایسے میں آمریتیں لوگوں پر پرچے کاٹتیں ہیں۔ جمہوریت کا دور میں نام نہاد جمہوریت ہی کیوں نہ ہوا، تب ہم نے دیکھا کہ لوگ غائب ہوتے رہے۔ جب میں سے ہزاروں کا آج تک کوئی سراغ نہیں۔ پوچھیں، تو کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان تھے، یا وہ ملک دشمن تھے، یا وہ دوسرے ملکوں میں چلے گئے، یا فوجی آپریشن میں فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے۔ تاہم یہ سوال تو ظاہر ہے ہمیں کرنے کی اجازت نہیں کہ کوئی شخص لاپتا ہوا تھا، تو اس کا کوئی پرچہ ہی کاٹ لیتے، کم از کم معلوم تو ہوتا کہ ایک شہری غائب ہے۔ خیر نام نہاد جمہوری اداور میں لوگ غائب ہوتے رہے اور ہمارے رہنما چاہے وہ نواز شریف ہوں یا زرداری خاموشی سے تماشا دیکھتے رہے اور کرسی بچانے کے لیے ان کے لبوں پر ایک لفظ نہ آیا۔

تاہم عمران خان کے دور میں ٹھیک وہی رجحان دیکھا جا سکتا ہے، جو آمریتوں میں ہوتا ہے، یعنی جو جو تنقید کرے اس پر کوئی بھی پرچہ کاٹ دو، نہ حکومت نے کچھ بولنا ہے، نہ کوئی جج سر اٹھانے لائق ہے، نہ کسی صحافی نے کوئی آواز اٹھانی ہے، نہ عوام میں سے کسی نے کوئی سوال پوچھنا ہے۔

اس وقت جیلوں میں سیاسی بنیاد پر موجود لوگ اصل میں ملک میں آمریت کے سامنے آواز اٹھانے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ تاہم رات جتنی بھی سیاہ ہو، یہ طے ہے کہ صبح ہونا ہے۔

تمام سیاسی قیدیوں نواز شریف، آصف زرداری، مریم نواز، سعد رفیق، رانا ثنا اللہ فریال تالپر اور خصوصاﹰ محسن داوڑ اور علی وزیر کو عید مبارک۔ ہم آپ کے نظریات سے اختلاف کریں گے، آپ کے ماضی پر سوالات اٹھائیں گے۔ سابقہ اداور میں آپ کی اقتدار کے لیے ساز باز پر بھی بات کرتے رہیں گے اور آپ کی طرز حکمرانی پر بھی گفت گو ہو گی۔

مگر آپ تمام لوگوں کا شکریہ کہ آپ ملک میں جمہوریت اور حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔