عید میلاد النبی مبارک ہو! لیکن!
مہنازاختر
اگر مذہبی نقطہ نظر سے بات کی جائے تو دنیا دو گروہوں میں تقسیم ہے، ایک مذہبی یا خدا پرست اور دوسرے ملحد یا منکرین خدا۔ مذہبی گروہ میں تمام مذاہب کے پیروکار شامل ہیں، پھر چاہے وہ یہودی ہوں، ہندو، بدھ یا مسلمان وغیرہ وغیرہ۔ ایک بات کی وضاحت کردوں کے میرے نزدیک مذہبیوں کی صف میں موجود بدتمیز، جاہل اور انسان دشمن مذہبی جو بظاہر مذہبی ہونے کا ڈھونگ کرتا ہے، مذہبی نہیں۔ بالکل ایسے ہی ملحدوں اور منکرین خدا کی صفوں میں موجود بظاہر لادین اور ”فری تھنکر“ لیکن درپردہ خود سے مختلف انسانوں کی روایات اور عقائد کا بھونڈے طریقے سے تمسخر اڑانے والا، نیز مادرپدر، بے ہنگم اور بنیادی اخلاقیات سے ماورا آزادی کو انسانیت کی معراج سمجھنے والا بھی ملحد یا منکر نہیں بلکہ ایک ڈھونگی ہے۔ جس طرح ایمان سے عقل وشعور کو حذف کردیا جائے تو مذہب چند عقائد اور رسوم پر اڑے رہنے کا نام ہے بالکل اسی طرح اگر الحاد کے پس پشت انسانی عقل و خرد کارفرما نہ ہو تو یہ بھی بس اصول و ضوابط سے فرار کی ایک قسم ہے یا پھر کسی خاص مذہب سے بے زاری کا بہانہ۔ میں ان دونوں طرح کے افراد کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتی لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایسے افراد ہی معاشرے کے بگاڑ اور فتنہ و فساد کی اصل جڑ ہیں۔
آپ اسے میری شعوری کمزوری سمجھیں مگر یہ سچ ہے کہ میں خدا پرست ہوں۔ میں شعوری اور لاشعوری طور پر اپنے خیالات کے خلاء کو خدا کے وجود سے پر کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں نے روایتی مذہبی اور نیم سیکولر مخلوط خاندان میں پرورش پائی ہے۔ بچپن اور نوعمری کے ایام میں جب میری شخصیت اور فکر کی عمارت تعمیر کے مراحل میں تھی، میں نے اسی وقت اپنے خدا کو ”کسٹامائز“ کرلیا تھا۔ میں عقیدے سے سنی مسلمان ہوں۔ میرا خدا ہمیشہ سے غفور و رحیم، علیم الخبیر اور ظاہر وباطن تھا۔ میں نے اس کی جباریت اور قہاریت میں خون کی پیاس بجھانے والا جہادی فلسفہ ”فٹ“ کرنے کے بجائے اسے ایسے رکھوالے کے طور پر جانا جو اچھائی کے دشمنوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود صابر اور بردبار اتنا ہے کہ اس نے کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر قانون قدرت کے آڑے آنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بلاشبہ میرے خدا کا تعارف مجھے اسلام کی بدولت ہی حاصل ہوا، اور اسلام محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بدولت۔ میں جیسا جیسا سنتی گئی، اپنے ذہن میں رسول اللہ کا صفاتی خاکہ بناتی گئی، اجلی رنگت، حسین چہرہ، مناسب قد، متناسب نقوش، چہرے پر سجی مدہم اور صابر سی مسکراہٹ۔ بہت کوشش کی کہ ان معلومات کے ذریعے کوئی حسین پیکر تراش لوں مگر تراش نہ پائی کیونکہ میرے لاشعور میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ وہ پیکر سب سے حسین ہے، حسین سے حسین۔
مجھ سے کئی دوست احباب فرانس والے معاملے پر میرے مؤقف کی وضاحت مانگ رہے ہیں۔ سوال پوچھا جارہا ہے کہ آپ کیسی مسلمان ہیں، کیا توہین آمیز خاکے سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی؟ فرانس اور توہین آمیز خاکوں کے معاملے میں آپ کا مؤقف کیا ہے، فرض کریں کہ اگر کوئی آپ کے والدین کے توہین آمیز خاکے بنادے تو آپ کو تکلیف نہیں ہوگی؟
میرا جواب ہے کہ شاید مجھے ویسی تکلیف سرے سے نہ ہو، جس کی آپ مجھ سے توقع کررہے ہیں۔ کیونکہ اگر خاکہ بنانے والے نے دو بے ہنگم سی تصویر بنا کر اس پر میرے والدین کا نام لکھ دیا ہے تو پہلی بات تو یہی ہوگی کہ وہ تصویر یا خاکے میرے والدین کے نہیں ہیں تو ایسے موقع پر غصہ کرنے کے بجائے میں خاکہ بنانے والے کو نظر انداز کردوں گی یا پھر اس حرکت کے پیچھے چھپی اس کی نیت جاننے کی کوشش کروں گی اور اگر ایسی حرکت کرنے کی وجہ مجھے اشتعال دلا کرمجھ سے الٹی سیدھی حرکت کروانا ہے تو میں مکمل خاموشی اختیار کرکے، اس کے منصوبے کو خاک میں ملانے کی کوشش کروں گی یا اس سے گفتگو کروں گی، یا پھر لکم دینکم ولی الدین، تم تمہاری راہ پر میں میری راہ۔ جہاں تک بات ہے گستاخانہ خاکوں کی تو میں عاشقان رسول سے سوال کرتی ہوں کہ کیا آپ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے؟ جو ہر گستاخانہ خاکے پر تصدیق کی مہر اپنے اشتعال سے ثبت کردیتے ہیں کہ واقعی یہ ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تصویر یا خاکہ ہے؟
پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔ یہاں توہین مذہب یا رسالت کے حوالے سے خاطر خواہ قوانین موجود ہیں، لیکن اس کا استعمال اکثر و بیشتر مبنی برحکمت کے بجائے مبنی بر جہالت ہوتا ہے۔ یہاں مذہبی اکثریت نے ایک قسم کی مذہبی غنڈہ گردہ کو عشق رسول کا نام دے دیا ہے۔ ہمارا توہین مذہب کا قانون صرف اور صرف اسلامی عقائد کو تحفظ دیتا ہے۔ کیا ہم نے آج تک یہ سنا ہے کہ کسی مسلمان کو کسی غیر مسلم کی مذہبی دل آزاری پر کوئی سزا ہوئی ہے۔ اس کے برعکس فرانس ایک سیکولر جمہوریہ ہے، وہاں دستور ہرعقیدے سے مقدم ہے۔ فرانس انسانی آزادی، مساوات اور انجمن باہمی کے اصولوں کے تحت چلنے والا ملک ہے۔ فرانس میں انسانی آزادی کو مذہبی عقائد پر فوقیت حاصل ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں فرانس نے عوامی مقامات پر مذہبی تشخص کو اجاگر کرنے والے پہناوے اور ثقافت کی حوصلہ شکنی کی پالیسی کو زورشور سے اپنایا ہوا ہے، اور اس کا شکار صرف مسلمان نہیں راسخ العقیدہ یہودی اور سکھ بھی بن چکے ہیں۔ فرانس میں توہین مذہب کا سب سے بڑا نشانہ بننے والا مذہب عیسائیت ہے۔ فرانس اور دوسرے ممالک میں سب سے زیادہ توہین یسوع مسیح اور عیسائیت کی، کی جاتی ہے لیکن آپ نے آج تک کسی عیسائی یا مسیحی کو توہین مذہب کا نام لے کر مذاق اڑانے والوں کو قتل کرتے نہیں دیکھا ہوگا۔
دوسری طرف فرانس ان ممالک میں بھی شامل ہے جس نے مسلمان سیاسی، جنگی اور مذہبی پناہی گزینوں کو خوش آمدید کہا ہے۔ میرا سوال تمام جذباتی مسلمانوں سے ہے کہ آپ بہتر معاشی مستقبل کی تلاش میں فرانس یا اس جیسے کسی دوسرے ملک میں ہی کیوں جانا چاہتے ہیں، سعودی عرب، عراق یا افغانستان میں کیوں نہیں، کم از کم یہاں آپ کے مذہبی جذبات کو ٹھیس تو نہیں پہنچے گی؟
ماہ ستمبر میں پچیس سالہ پاکستانی نوجوان چارلی ایبڈو کے دفتر کے باہر چند نہتے لوگوں پر حملہ آور ہوتا ہے، ایسا نوجوان جو بہتر معاشی مستقبل کی تلاش میں فرانس پہنچا ہے، پھر بھی ہم اسے شاباشی دیتے ہیں۔ ایک چیچن پناہ گزین نوجوان شہریت کا مضمون پڑھانے والے استاد کا سر قلم کردیتا ہے، جس کا کوئی تعلق اس مضمون یا درسگاہ سے نہ تھا، آپ اس کی بھی واہ واہ کرتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ فرانس ہی میں تیونس کا ایک غیر قانونی نوجوان تارک وطن اللہ اکبر کہتے کہتے چرچ پر حملہ آور ہوتا ہے اور ایک انجان خاتون کا سر قلم کردیتا ہے۔ کیا ان حرکتوں کے بعد بھی آپ کہتے ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔
میں کیونکہ اسلامک اسٹڈیز کی طالبہ ہوں اس لیئے مجھے اسلام سمیت تمام مذاہب اور ان کی مقدس شخصیات پر تنقید پڑھنے کی عادت ہے۔ بطور طالب علم میں یہ جانتی ہوں کہ ہمارے عقائد اور مذہبی جذبات کے پس پشت ہماری تربیت، نفسیاتی محرکات، محرومیاں اور ہمارے سیاسی و معاشی حالات بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ ہم اکثروبیشتر اپنی فرسٹریشن کو مذہبی جذبات کا نام دے لیتے ہیں۔ صرف فرانس کے حالیہ تین واقعات کی کیس اسٹڈی کیجیے، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اپنے اپنے ملک سے نکل بھاگنے والے ان تینوں نوجوانوں میں فرانس کی خوشحالی اور انسانی آزادی کی تکریم کے حوالے سے حسد اور رقابت کا جذبہ ضرور کارفرما رہا ہوگا۔ ان کے پاس خود کو فرانس سے بہترو برتر ثابت کرنے کے لیئے سوائے اپنے نام نہاد عقیدے کے کچھ نہ ہوگا۔ جبھی تو انہیں اسلام بہ مثل خون خرابہ سمجھ آیا اور انہوں نے اپنے جذبات کی تسکین کو فہم و تدبر، علم و مباحثے سے برتر جانا۔
سوال یہ ہے کہ شہریت، نفسیات یا فلسفے کی جماعت میں استاد انتہا پسندی پر مبنی مذہبی رویے نہ پڑھائے تو کہاں پڑھائے؟ آج عیدمیلاد النبی کا دن ہے اور بہ حیثیت مسلمان یہ میری عید ہے۔ میں آج کے دن قارئین پر طنز کے نشتر نہیں چلانا چاہتی۔ ہاں سنجیدہ مسلمانوں کو مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا یہ نقطہ ضرور سمجھانا چاہتی ہوں کہ دنیا کچھ لو اور کچھ دو کے اصولوں پر چلتی ہے۔ اگر میں اپنے عقائد کے لیئے دنیا سے احترام کی طالب ہوں تو مجھے بھی دوسروں کے عقائد اور ان کے قوانین کا احترام کرنا ہوگا کیونکہ اگر اب بھی مسلمانوں نے اسلام اور انتہا پسندی میں فرق نہ کیا تو مجھے فرانس میں مسلم ہولوکاسٹ کا ڈر ہے، اور یقین کریں یہ سلسلہ رکے گا نہیں، آگے چین اور بھارت تک بھی پہنچے گا۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم مسلمان اپنے کرداروں کو آئینے کے سامنے رکھ کر سوال کریں کہ اپنے دین یا نبی کی حرمت کا نام لے کر ہم نے آج تک بس خون ہی کیوں بہایا ہے۔ مجھے ماضی کے مسلمانوں کے عروج اور مغرب کے اخلاقی زوال کی کہانیاں نہ سنائیں، میں جانتی ہوں۔ یہ بتائیں کہ آج کی جدید دنیا کی ترقی اور امن و امان میں اور انسانی مساوات کی تشکیل میں ہمارا کتنا حصہ ہے۔ غیر مسلم دنیا ہم سے سوال کررہی ہے۔