غیرملکی سازش ہی سہی مگر تہران حکومت گریبان میں بھی جھانکے

عاطف توقیر

ایران میں گزشتہ جمعرات سے مظاہرے جاری ہیں۔ ابتدا میں ملک کے شمال مشرقی خُراسان صوبے سے اگنے والی احتجاجی لہر رفتہ رفتہ ملک کے دیگر حصوں میں پھیلتی چلی گئی اور پھر ان میں تشد کا رنگ بھی نظر آنے لگا۔

ایران میں سن 79 کے انقلاب کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اس طرح کا عوامی احتجاج دکھائی دے رہا ہے، جس میں ملک کی مذہبی قیادت کو براہ راست للکارتے ہوئے اس کے خلاف نعرے بازی ہو رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ان مظاہروں میں ’آمر مردہ باد‘ جیسے نعرے تک سنائی دے رہے ہیں۔

ایران حکومت اور خصوصاﹰ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج ایران کے غیرملکی دشمنوں کی ایما پر ہو رہا ہے اور وہ ان مظاہرین کو سرمایہ اور ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔

ظاہر ہے یہ ممکن ہے کہ خامنہ کی بات عین درست ہو، مگر اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ مظاہرے شروع کیوں ہوئے اور کسی غیرملکی دشمن کو ایسی کسی کارروائی کا موقع کیوں ملا۔ ہمیشہ کی طرح ہر ملک پر قابض حکم ران طبقہ اپنی کوتاہیوں اور خرابیوں کو تسلیم کرنے یا اپنی خامیوں کو دور کرنے کی بجائے ہمیشہ سستی اور جذباتی نعرے بازی سے تمام تر الزام خود سے حتی المکان دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے کہ  غیرملکی قوتوں کو دخل اندازی کا موقع کیسے ملا عموماﹰ فقط اس نکتے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے کہ غیرملکی قوتوں ریاست کو غیرمستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک عام شہری فوراﹰ ان جذباتی جملوں اور حب الوطنی کے جذبے کے تحت تمام تر سوالات ایک طرف رکھ کے اس حکم ران طبقے کی بقا کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔

ایران میں غربت کی حالت یہ ہے کہ کئی مقامات پر خواتین فقط روٹی کھانے یا اپنے بچوں کو پیٹ پالنے کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہوتی ہیں۔ آزادیء رائے کی حالت یہ ہے کہ ہر صحافتی ادارے میں پاسداران انقلاب موجود ہیں اور ملک میں کوئی بھی ایسی تحریر شائع نہیں ہو سکتی جو کسی بھی طرح مذہبی قیادت پر تنقید پر مبنی ہو یا جس میں اسے قلمی طور پر نشانہ بنایا جا سکے۔

کرپشن کی حالت یہ ہے کہ سپاہی سے لے کر اعلیٰ عہدے دار شخصیات تک مال بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اقلتیوں کی حالت ناگفتہ بہ اور اپنے حقوق مانگنے والے کردوں کے خلاف کریک ڈاؤن غیرمعمولی۔

جس ملک میں آزادیء اظہار رائے پر قدغن ہو، جس ملک میں دیس کی جہت کی بابت فیصلوں کا اختیار ملکی عوام کو نہ ہو، جس ملک میں غربت اور صحت کے شعبے برباد کن حد تک زبوں حالی کا شکار ہوں، جس ملک میں زندہ رہنا کسی قید خانے سے عبارت ہو، جس ملک میں نشریاتی ادارے حکم رانوں کے راگ الاپنے کا کوئی آلہ ہوں اور جس ملک میں خواتین کے حقوق پامال ہوتے ہوں،جس ملک میں انصاف کی حالت یہ ہو کہ شدید تشدد کے دوران پہلے ہی سے لکھے اقرار نامے پر دسختط کرائے جائیں اور عدالت ان کی بنا پر کسی کو بھی سزا دے سکے، جس ملک میں کسی شخص کسی بھی الزام پر اٹھایا جائے اور اسے اعتراف جرم کے لیے اس کے پیاروں کی زندگیوں سے متعلق دھمکیاں دے جائیں، اس ملک کی عمارت میں ایسی دراڑیں ضرور موجود ہوتی ہیں کہ وہ یا تو کسی غیرملکی دھکے سے ڈھ جاتی ہے یا خود اپنے ہی بوجھ سے منہدم ہو جاتی ہے۔

ایران ملک میں موجود تمام تر غربت کے باوجود مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اثرورسوخ میں اضافے کے لیے بے دریغ سرمایہ خرچ کرتا رہا ہے۔ ایک ملک جس کے اپنے اندر غربت، افلاس، بھوک، بنیادی انسانی ضروریات اور تعلیم جیسے بھیانک مسائل موجود ہوں، وہ ملک کس طرح ملک کے بے شمار وسائل اپنے عسکری قوت اور دیگر ممالک میں پراکسی جنگوں میں استعمال کر سکتا ہے؟

ایک ملک جہاں لوگ بہتر زندگی سے جڑی بنیادی اشیا سے محروم ہوں، وہ کس طرح قوم کے سرمایے سے بنائے گئے ہتھیاروں کو یمن، عراق، شام، لبنان اور جانے کہاں کہاں بھیج سکتا ہے؟

ایک ملک جہاں کئی ملین بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، وہاں کس طرح ریاستی وسائل کا بہت بڑا حصہ دفاع کے نام پر ہتھیار جمع کرنے پر استعمال ہو سکتا ہے؟

یہی ایران کے ان مظاہرین کا بھی سوال تھا۔ اسی سوال کے ساتھ ان مظاہروں کا آغاز ہوا اور آغاز کے بعد اگر غیرملکی طاقتیں یا ایران کے دشمن اس کا فائدہ اٹھائیں، تو کوئی عقل و شعور رکھنے والا شخص خود ہی سے سوال کرے کہ اگر کوئی دشمن ہے، تو وہ فائدہ کیوں نہیں اٹھائے گا؟

حکم ران طبقہ ان سوالات کے جوابات دینے کی بجائے، جب جب تقدیس اور مذہب سے جڑے جذبات کو استعمال کر کے اپنے اختیار اور اقتدار کو دوام دیتا رہے گا، تب تب معاشرہ عدم استحکام ہی کا شکار رہے گا۔

ایرانی حکم ران بھی اگر مسائل سے روگردانی کرنے کی بجائے ان سوالات کے جوابات دینے پر توجہ دیں اور اپنے ملک میں موجود ان دراڑوں کا خاتمہ کریں، تو شاید غیرملکی قوتیں ایران کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔

ایک منقسم معاشرہ کسی بھی انتشار سے فقط ایک پھونک دور ہوتا ہے۔ تقسیم ختم کیجیے، دشمن تو پھونکے گا۔