مقتول صحافی اور وطنِ عزیز میں سعودی سرمایہ کاری کا سنہری موقع

سعد اقبال

چند برس قبل سعودی عرب میں عرب اسلامک امریکا سمٹ ہوئی اور چونکہ مدعوین میں بڑے بڑے نام موجود تھے اس لیے وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو نہ صرف تقریر نہ کرنے دی گئی بلکہ انہیں کوئی خاص توجہ بھی نہ دی گئی۔ حالانکہ ایسا ہونا حیران کن تھا چونکہ سمٹ کا موضوع ’’دہشت گردی کے خلاف اسلامی دنیا کی کاوشیں‘‘ تھا۔ اور سعودی قیادت میں بین الاسلامی فوج جو اس سمٹ میں خاص موضوعِ بحث تھی اس کی سربراہی پاکستان کے سابقہ سپاہ سالار راحیل شریف کر رہے تھے، جو سمٹ میں خاص توجہ کا مرکز بھی رہے۔

غالباً وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی منتخب پالیمان نے یمن میں فوج بھیجنے کے خلاف فیصلہ کیا تھا لہذااس کا خمیاضا پاکستان کی عوام کے منتخب وزیراعظم کو ہی بھگتنا تھا۔ سمٹ سے پہلے بہت سے دوستوں نے اس بات کا خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ ہمیں ترکی کی طرح اپنے وزیرِ خارجہ کوسمٹ میں بھیجنا چاہیے اور اس لیے شریف حکومت پر کافی تنقید بھی کی گئی اور ان تنقید کرنے والوں میں میں بھی شامل تھا۔ اور ہمارے موجودہ وزیرِ اعظم بھی غالباً ایسے خیال رکھتے تھے۔

بہرحال وقت گزرا اور کچھ عرصہ قبل سعودیہ نے ایک اور کانفرنس کا اعلان کیا جس کا موضوع سعودیہ میں سرمایہ کاری کی طرف دنیا کو مائل کرنا ہے، کانفرنس میں شمولیت کے لیے امریکا اور یورپ کی بڑی کمپنیوں کو دعوت دی گئی اور متوقع تھا کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک سے اعلیٰ عہدیدار اس میں شریک ہوں گے، اور جن ممالک کو شرکت کی دعوت نہ دی گئی ان میں پاکستان سرِفہرست تھا، حتیٰ کہ موجودہ وزیر اعظم کے حال ہی کے سعودی دورہ میں بھی وطنِ عزیز کواس دعوتِ کانفرنس سے محروم رکھا گیا۔

ستمِ حال دیکھیے کہ سعودی ولی عہد کو بھی ابھی امریکا میں مقیم سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی (جنہیں حلقہِ صحافت میں ایک حق گو صحافی ہونے کے ناتے بہت احترام سے دیکھا جاتا تھا) کو اپنے ترکی میں موجود کونسل خانے میں قتل کرنے کی مہم جوئی سوجھی اور ستم در ستم کہ خاشقجی کی منگیتر، دوستوں اور حکومتِ ترکی نے اس مہم جوئی کا سارا کچا چٹھا دنیا کہ آگے کھول کر رکھ دیا۔

کچھ ستم یہ بھی کہ اب ایسی مہم جوئی کا دور بھی نہیں رہا۔ سعودی حکومت نے ابتدا میں ایسے کسی واقع کی تردید کرتے ہوئے اسے ایک سازش قرار دیا اور واقعے کے بعد امریکی اور یورپی بازگشت کا اور قتل میں سعودی حکومت کے شمولیت پر ممکنہ پابندیوں کے ذریعے جواب پر ابتدائی سعودی ردِعمل بہت جارحانہ تھا مگر اس غیور غبارے میں سے اب ہوا نکلتی دکھائی دے رہی ہے اور سعودی حکومت نے اس قتل کی تصدیق کرتے ہوئے بلی کے بکرے تیار کر لیے ہیں جنہیں جلد ہی نام نہاد انصاف کی بھینٹ چڑھایا جائے گا۔
اس خبر کے منظرِ عام پہ آنے کے بعد مدعو بین الاقوامی کمپنیوں اور تمام بین الاقوامی سرکاری وفود نے سعودی عرب میں ہونے والی اقتصادی کانفرنس میں شمولیت سے معذرت کر لی۔ مگر صاحب جب کوئی بھی آپ کی نہ سنے تو کرسیاں بھرنےکو امتِ مسلمہ میں ایک غبارے میں ہوا ضرور پھلائی جاتی ہے اور خاص کر جب کہ یہ غبارا خود دربدر ہوا ڈھونڈ رہا ہو۔

لہذا ہمارے غیور وزیرِ اعظم اپنے وزیروں اور مشیروں کے ساتھ سعودیہ کے ایک اور کامیاب دورہ کا رختِ سفر باندھنے میں مصروف ہو گئے ہیں اور بیگانی شادی میں اس عبداللہ کا دیوانہ پن کچھ روز تک سوشل میڈیا کی خوب زینت بنے کو ہے۔

چونکہ کانفرنس کا موضوع تو سعودیہ میں سرمایہ کاری ہے اور اس سے تو ہمارا دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں مگر سعودیہ سے لینا تو ہے، سواس خالی محفل میں رنگ ڈالنے میں کیا قباہت ہے۔

باقی جہاں تک رہا ایک حق پرست صحافی کے قتل کا سوال تو صاحب ہم اس کی بلندیِ درجات کی دعا کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔
بھائی سیدھی سی بات ہے نوکر کی تے نخرا کی۔ مگر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کب تک وطنِ عزیز کی نام نہاد ترقی کا انحصار دوسروں کی ستم ظریفیوں پر رہے گا؟ وہ وقت کب آئے گا کہ ہم حق کا ساتھ دیں گے اور عرب و عجم سے دو ٹوک الفاظ میں ان کے ظلم و جہاریت کی مذمت کریں گے۔ سنا ہے باطل کے خلاف کہے گئے الفاظ بھی جہاد کا درجہ رکھتے ہیں۔