نواز شریف کی ’توہین عدالت‘ والی تقریروں پر پابندی اور مکافات عمل
عاطف توقیر
ہمارے ہاں غیرجمہوری اور غیردستوری رویوں اور روایتوں کو درست قرار دینے کی ایک خصوصی تاریخ ہے۔ چوں کہ ماضی سب کا سب کے سامنے ہوتا ہے، اس لیے نہایت آسان سا معاملہ ہے کہ کسی بھی غیرجمہوری روایت یا راستے کو مکافاتِ عمل قرار دے کر خاموشی سے ایک طرف ہو کر بیٹھ جایا جائے۔
لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز شریف کی ان تمام تر تقاریر کو نشر کرنے سے روک دیا ہے، جن میں عدالت کے مطابق ’عدالت کے تیئں توہین آمیز‘ مواد شامل ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چوں کہ لائیو کوریج میں نشریاتی ادارے کو معلوم نہیں ہوتا کہ کون سا راہ نما کیا کہنے والا ہے، اس لیے مسلم لیگ کے قریب تمام ہی رہنماؤں کی لائیو کوریج ختم ۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کو چند ہی ماہ رہ گئے ہیں، یہ پابندی ان انتخابات کی شفافیت پر کئی طرح کے سوالات اٹھا رہی ہے۔ اس سے پہلے کے عدالتی احکامات بھی واضح طور پر میزان کا پلڑا ایک طرف جھکاتے ملتے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=GpM_dGfj2xc&t=198s
نواز شریف صاحب اور مسلم لیگ نواز کا اپنا ماضی خود ایسا نہیں ہے کہ اسے کوئی مثالیہ بنا کر پیش کیا جا سکے۔ گیلانی کے خلاف 62 اور 63 کے تحت مقدمے کا معاملہ تھا، تو نواز شریف خود کالا کوٹ پہنچ کر سپریم کورٹ کے چکر لگاتے ملتے تھے اور وہ تب تک سکون سے نہ بیٹھے جب تک گیلانی کی وزارت عظمیٰ کا خاتمہ نہیں کر دیا۔ ادھر الطاف حسین کی تقریروں پر پابندی عائد کی تو اس پر بھی نواز شریف نہایت واضح موقف کے ساتھ عدالتی فیصلے کی حمایت میں کھڑے رہے۔ نواز شریف کی اس سے قبل کی تاریخ دیکھی جائے، تو وہ اور بھی زیادہ داغ دار ملتی ہے۔
ادھر ایم کیو ایم کے لوگ، جو الطاف حسین کی تقریر پر پابندی کے غصے کا شکار تھے، آج نواز شریف پر پابندی کو مکافات عمل کہہ کر شاداں ملتے ہیں۔ جب کہ پاکستان تحریک انصاف جشن مناتی اور عدالتی فیصلوں کو ’نیا پاکستان‘ قرار دے کر بھنگڑے ڈال رہی ہے کہ میدان صاف ہوا۔
اس پورے معاملے میں ایک اور بھیانک اور گھٹیا روایت قائم ہو رہی ہے اور وہ یہ کہ کسی بھی شخص کی آزادیء اظہار رائے کو محدود کر دیا جائے اور چوں کہ محدود کرنے والا ادارہ وہ ہے، جسے شہری آزادی کا تحفظ کرنا ہے، اس لیے پوچھنے والا کون ہو گا؟
ملک میں اس سے قبل مارشل لا کے ادوار میں جرنیل آمروں کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ کوئی میڈیا ہاؤس، کوئی صحافی یا کوئی قلم کار کھل کر اپنے خیالات کا اظہار نہ کرے۔ ان ادوار میں بھی بدقسمتی سے ہماری عدلیہ آمروں ہی کی گود میں نظر آتی ہے۔ غیرجمہوری اور غیردستوری اقدامات کو عدلیہ نے پی سی او کے تحت حلف لے کر نہ صرف ’نظریہ ضرورت‘ کہہ کر درست اور جائز قرار دیا بلکہ ایسی روایتیں قائم کر دیں، جو اس ملک کی تاریخ میں ہمیشہ عدلیہ کا تعاقب کرتی رہیں گی۔
اس وقت معاملہ یہ ہے کہ عدلیہ انتظامیہ کے کئی معاملات اپنے ہاتھ میں لے چکی ہے اور سیاست دان خود اپنے ہی دام میں پھنس چکے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=l8TuhzaC3w4&t=54s
سیاست دانوں نے پارلیمان میں پہنچ کر ایک آمر کی بنائی ہوئی صادق اور امین کی شق کو آئین کا حصہ بنایا اور کبھی نہیں سوچا کہ یہ کسی بھی شخص کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 19 میں آزادیء اظہار رائے کی ضمانت دیتے ہوئے ساتھ میں یہ لاحقے بھی شامل کر دیے گئے کہ ملک کی ’سلامتی‘ یا ’دفاع‘ کے معاملات پر اس کی آزادی محدود ہو گی اور وہ ایسا بھی کچھ نہیں کہہ سکتا جو ’توہین عدالت‘ کے زمرے میں آتا ہو۔
ان آرٹیکلز کی تشریح کا حق دستور چوں کہ عدلیہ کو تفویض کرتا ہے، اس لیے یہ وہ طے کرے گی کہ کون سی چیز توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے اور کون سی نہیں۔
یعنی اب حالات یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی عدالتی فیصلے کو درست نہیں سمجھتا اور اس پر تنقید کرتا ہے، تو وہ توہین عدالت کی زد پر ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ملک کی دفاعی اور سلامتی کی پالیسیوں کو نادرست سمجھتا ہو، تو سلامتی کے ادارے اس کا تعین کیا کریں گے۔ یعنی دودھ کی حفاظت کی ذمہ داری بلی کے سپرد ہے۔
دنیا کے ہر مہذب ملک میں کوئی بھی شہری ملک کی کسی بھی پالیسی، کسی بھی رہ نما، کسی بھی ادارے اور کسی بھی تنظیم پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ رائے نفرت انگیزی، نسل پرستی یا تشدد کی ترویج پر مبنی ہو، تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے جب کہ دوسری صورت میں اس کی آزادیء اظہار کے حق کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
نواز شریف کا یہ تیسرا دورِ حکومت تھا، مگر اس دوران شہری آزادیوں کا گلا گھونٹا جاتا رہا اور وہ کسی بھی صورت ہمیں بولتے دکھائی نہ دیے۔ ملک بھر مشرف کے دور میں ابتدا میں لوگوں کو اٹھا ٹھا کر امریکا کے حوالے کر کے ڈالر کمائے گئے، پھر مذہبی افراد کو بغیر مقدمے، بغیر ایف آئی آر، بغیر جرم بتائے، لاپتا کیا جاتا رہا اور اس غیرقانونی کام پر قوم سوئی رہی اور سول سوسائٹی ’مذہبی افراد‘ کی گم شدگیوں پر شادمانی کا اظہار کرتی رہی، ڈرون حملوں پر جشن مناتی رہی اور لاتعلق رہی، تو نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں ہر وہ آواز جو جمہوریت، انسانی حقوق، شہری آزادی یا اقلتیوں کے معاملات پر اٹھی، اسے یا تو خاموش کر دیا گیا یا لاپتا کر دیا گیا اور یا پھر ختم کر دیا گیا۔ پچھلے قریب پانچ برسوں سے حکومت نواز شریف صاحب کی تھی، جن میں سے چار برس سے زائد عرصے نواز شریف مسند وزارت عظمیٰ پر فائز رہے، اس دوران نواز شریف صاحب کی جانب سے کبھی ایک جملہ ان لاپتا افراد کے لیے نہیں کہا گیا، کبھی ایک بار ملک میں قانون کی بالادستی پر بات نہیں کی گئی، کبھی ایک بار یہ نہیں کہا گیا کہ کسی ریاستی ادارے کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ملک کے کسی بھی شہری کو بغیر مقدمہ درج کیے حراست میں لے۔
ادھر پچھلے دور حکومت میں عدلیہ کے ذریعے پیپلز پارٹی کو مسلسل ’سبق سکھانے‘ کی روش میں بھی نواز شریف صاحب پیش پیش رہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=ebIDRtvFeW8
اب ٹھیک یہی طریق پیپلز پارٹی کی طرف سے دکھائی دے رہا ہے۔ زرداری اینڈ کمپنی ملک میں غیرجمہوری معاملات پر بالکل اسی طرح خاموش ہے، جیسے نواز شریف تھے۔ ایم کیو ایم اس پورے معاملے کو ’مکافاتِ عمل‘ قرار دے کر ایک طرف کھڑی ہے، جب کہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان صاحب کا جمہوری رویوں سے پہلے ہی کوئی تعلق نہیں۔ وہ اب تک ہر اس عمل کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں، جو کل، اگر وہ برسر اقتدار آ گئے، تو ان کے لیے ایک عذاب کھڑا کر دے گا۔ ان کے سر پر 62 اور 63 کی تلوار بھی لٹکتی رہے گی اور دوسری طرف عدلیہ کا خنجر بھی ان کی گردن پر ہو گا۔ اس دوران وہ وہی کچھ کر پائیں گے، جو ان سے کہا جائے گا اور انہوں نے بھی اگر عوام کی بہتری یا قوم کے مفاد میں کچھ کرنے کی کوشش کی، تو نتیجہ آج کی اس کہانی کے دہرائے جانے کی صورت میں نکلے گا۔ ایسے میں مسلم لیگ نون ایک طرف کھڑے ہو کر مکافات عمل کے نعرے لگائے گی اور یہ عمل اسی طرح چلتا رہے گا۔
اس پورے سیاسی کھیل میں نہ عوام کے دکھوں کا مداوا ہو گا، نہ مہنگائی کے آسیب پر قابو پایا جا سکے گا، نہ انسانی حقوق کی صورت حال میں بہتری آئے گی، نہ صحت اور تعلیم کے معاملے پر کچھ بہتری ہو گی اور نہ ہی ملک سے جبری گم شدگیوں یا دیگر سنجیدہ مسائل کا خاتمہ ہو پائے گا۔
اس وقت ضرورت اس عمل کی ہے کہ مکافاتِ عمل کی رٹ لگانے کی بجائے، ہر اس اقدام کی سخت مذمت کی جائے جو ہماری شہری آزادیوں کو سلب کرنے سے عبارت ہو۔ ملک میں دستور اور قانون کا راج اور دستور میں بھی جہاں جہاں شہریوں کے درمیان فرق یا شہری حقوق کی آزادی میں کمی معلوم ہو، سیاست دان اسے مل کر حل کریں۔ یہی وہ راستہ ہے کہ پاکستان ایک مہذب معاشرہ اور جمہوری ریاست بن پائے گا۔