کاپی پیسٹ انقلابیے

وقاص احمد

“ہاں جی پھر؟” میں نے داخل ہوتے ہی استہزائیہ انداز میں سوال جڑ دیا۔ وہ میرا پیارا دوست ہے اور مجھے معلوم تھا کہ اس وقت وہ غصے سے بھرا بیٹھا ہو گا اور حسب معمول گالیاں بکے گا۔ مگر وہ مکمل شانت تھا۔ اس نے سر اٹھا کر میری طرف حقارت سے دیکھا اور اس کی انکھوں کو دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ ابھی ابھی اس نے فیس بک سے کوئی ایسی تاویل، کوئی ایسی دلیل اور کوئی ایسا حساب کتاب پڑھ لیا ہے جس کے بعد یہ مطمئن ہے کہ اس کے پاس ہار کا جواب موجود ہے۔ حسب توقع اس نے الٹے سیدھے حسابی فارمولے، مک مکا کے کوسنے اور نا موزوں امیدواروں کا رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ میں نے کوئی دس منٹ اس بے ہنگم شور کو برداشت کیا اور پیار سے کہا “میرے بھائی! تم سب کچھ ٹھیک کہہ رہے ہو، بس مجھے خلاصہ سمجھا دو کہ کیوں پی ٹی آئی ضمنی انتخابات میں نہیں جیت پائی جبکہ آپ ہی کے مطابق ضمنی انتخابات تو ہوتے ہی حکمران جماعت کے ہیں”؟

جواب میں میرے دوست نے ایک دفعہ پھر مجھے حقارت سے دیکھ کر کہا “اس کو ایمانداری کہتے ہیں، جو تم لوگوں کے پاس سے بھی نہیں گزری۔ ہم نے بے ایمانی نہیں کی اور ہار گئے”.

میں نے ذومعنی لہجے میں کہا “میں ایک بار پھر تم سے متفق ہوں میرے یار، آپ لوگ واقعی اس لیے نہیں جیتے کیونکہ آپ نے بے ایمانی نہیں کی تھی”. میرے اس بیان پر میرا دوست مطمئن ہو کر سکون سے بیٹھ گیا، یقیناً اسے بالکل سمجھ نہیں لگی کہ میں نے کیا کہا ہے۔

تو میرے سجنو تے بیلیو کبھی بھی کسی اہل انصاف سے دلائل کی سر پھٹول نا کریں۔ صرف دس پندرہ منٹ اسے بولنے دیں، وہ اپنے آپ کو خود ہی غلط، جھوٹا اور یوٹرن ماسٹر ثابت کر دے گا۔ آخرکار ان ٹائیگرز اور ٹائیگریسز کے ٹریننگ بھی تو یوٹرنز کے بے تاج شہنشاہ محترمی جناب منگو خاں صاحب نے کی ہے۔ ارے، دیکھیے میرے الفاظ کا غلط مطلب نا نکالیے۔ یہ “منگو” وہ ڈونکی کنگ والا منگو نہیں ہے، نہیں بالکل نہیں۔ میں نے یہ لفظ منگو اس لیے استعمال کیا ہے کہ جب سے خاں صاحب تشریف لائے ہیں تب سے ملک میں چندے، صدقات، بھیک اور قرضے مانگنے کا دور دورہ ہے۔ بس اس مانگنے والی فطرت کی وجہ سے میں نے انہیں منگو خان کہا۔

خیر حاصل کلام کسی خاص بندے، گروہ یا سیاسی پارٹی سے منسلک نہیں۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ جہاں آپ کو محسوس ہو کہ آپ کا مخاطب پہلے ہی کسی نتیجے پر پہنچ چکا ہے وہاں اپنے دلائل، اپنا وقت اور اپنا خون جگر جلانے کی کوشش مت کریں۔ یہ بات ہر پٹواری، ہر زندہ بھٹو، ہر بوٹ پالشیے اور ہر یوتھیے (یہ سب محبت کے نام ہیں) کے لیے درست ہیں۔ اگر آپ کو نظر آرہا ہے کہ آپ کی ڈیڑھ صفحے کی پرمغز اور تاریخی دلائل سے بھرپور پوسٹ پر اگلا بندہ کسی پروپیگنڈا پیج کا کوئی لنک چھاپ رہا ہے تو یقین مانیے، آپ دونوں دریا کے ایسے دو کنارے ہیں جو ساتھ ساتھ میلوں دور تک چلے جائیں گے لیکن کبھی آپس میں ملیں گے نہیں۔
بعینہٖ آپ کو اس قسم کا میسج کہیں پڑھنے کو ملے جیسا میں پچھلے دو دن سے کہیں پڑھ رہا ہوں تو گفتگو سے پرہیز صرف اور صرف آپ کی صحت کے لیے بہتر ہوگا۔ مثال کے طور پر مختلف میسجز پر غور فرمائیں

1- آئین ہونا ہی نہیں چاہیے، فضول چیز
2- ملک سے اوپر کچھ نہیں ہوتا، آئین بھی نہیں (ملک سے ان صاحب کی مراد اپنے حوالدار صاحبان تھے)
3- آئی ایس آئی پاکستان کے دفاع کی آخری لکیر ہے اور انہیں مکمل اختیار ہے کہ جہاں، جو، جب اور جیسے بھی مناسب سمجھیں کر جائیں اور اس پر سوال اٹھانا یا مخالفت کرنا غداری ہے۔
4- خاں صاحب “اکیلے” ہی سارے چوروں کے خلاف کھڑے ہیں۔
5- ساری دنیا کے خفیہ ادارے اس وقت ہاتھ منہ پیر دھو کر خاں صاحب کو ناکام کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔
6- کرنسی کا بحران سی آئی اے نے پیدا کیا ہے۔

اب خود زرا سوچیئے، آپ ان لوگوں سے کیا بات کر پائیں گے؟ یہ معرفت کی منزلوں پر پہنچ چکے ہیں۔ ان کے دماغ نے امیتابھ بچن کے “کمپیوٹر جی” کی طرح جواب کو نا صرف لاک کر دیا بلکہ اس پر سیل لگا کر چابی بھی گما دی ہے۔ انسانی نفسیات کی بات کریں تو یہ قریب قریب ناممکن ہے کہ آپ دو متضاد آرا کے لوگوں کو آمنے سامنے بٹھائیں اور ان میں سے کوئی ایک دلیل کی بنیاد پر دوسرے کا قائل کر لے۔ مگر پڑھے لکھے، باشعور، سلجھے ہوئے لوگوں سے بحث (ہٹ دھرمی نہیں) کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ چاہے ان سے یا وہ آپ سے کلی متفق نا ہوں مگر وہ آپ کے اور آپ ان کے دماغ کے کچھ بند دریچے کھول دیتے ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے سے سیکھنے کا بھی موقع ملتا ہے اور زیر بحث مسائل کو مختلف زاویہ نظر سے بھی دیکھنے کا۔ تو کوشش کیجئے کہ گفتگو ان سے کریں جو کم از کم آپ کی بات سن رہے ہوں۔ اور پھر جو آپ کی بات سن رہا ہو آپ بھی توجہ سے ان کی بات سنیں۔ بحث دلائل پر ضرور کیجئے لیکن اس میں ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا پہلو نا آنے پائے۔

گفتگو جس موضوع پر ہو رہی ہو اس سے بدلنے کی کوشش دوسرے فریق کو شدید کوفت کا شکار کر دیتی ہے اور یہ ویسے بھی بدتمیزی اور بد تہذیبی کے زمرے میں آتا ہے۔ خصوصاً جب آپ کسی دوسرے کی پوسٹ پر جواب دینا چاہیں تو اسے لازم کر لیجئے کہ پوسٹ کے موضوع سے ہٹ کر کوئی بات ناں کی جائے۔ اکثر اوقات سوشل میڈیا پر لوگوں کو خصوصاً دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی موضوع پر بات نا بن پائے یا جعلسازی کی خجالت کا سامنا ہو تو فوراً موضوع پلٹ کر کہیں اور نکل جاتے ہیں۔

اور سب سے اہم بات۔ یا تو پارسائی، پاکبازی اور فرشتے ہونے کے دعویدار مت بنیں، یا پھر اپنی یا اپنے لیڈران کی غلطی پکڑے جانے پر دوسروں کی ماضی کی مثالیں دینا ترک کر کے غلطی مان لینا سیکھیں۔ اس کی بے شمار مثالیں میں دے سکتا ہوں لیکن چونکہ سبھی کو معلوم ہے کہ آج کی سیاسی غلطیوں، کوتاہیوں اور انتظامی خرابیوں کا دفاع فریق مخالف کی 30-40 سال پرانی غلطیوں سے کون سے ارسطو کرتے ہیں اس لیے دہرانے کا فائدہ نہیں۔

ایک اور اہم بات، دلائل بھی حتمی پیمانہ نہیں سچ اور جھوٹ کو ماپنے کا۔ دلائل سے آپ چور کو سادھ اور سادھ کو چور ثابت کر سکتے ہیں۔ ابلیس کے پاس بھی خدا تعالیٰ کی حکم عدولی کے جواز میں دلائل تھے مگر اسے اس کے دلائل سمیت راندہ درگاہ کر دیا گیا۔ کوشش کریں کہ آپ کے دلائل فریق مخالف کو زچ کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے ہوں۔

آج کے لیے یہی کافی۔ گالم گلوچ، برے القابات اور بد زبانی پر بھی بات ہو سکتی تھی لیکن وہ ایک سعی لاحاصل ہے۔ یہ ایکشن کے ری ایکشن ٹائپ علت ہے جو کہ پچھلے 10 سالوں میں بڑی محنت سے اس قوم کے کریکٹر میں بھر دی گئی ہے۔ اب اس سے چھٹکارا قومی لیول پر ہی ہو تو ہو، انفرادی سطح پر ممکن نہیں۔ ظاہر ہے جب آپ کسی کی ذات، اسکے خاندان، اسکی ماں بہن یا اس کے محبوب لیڈر پر گند اچھالیں گے تو ایسے ولی تو یہاں نہیں بیٹھے ناں جو آپ کو آپ کی زبان میں جواب ناں دیں۔ جواب تو آئے گا۔ کچھ لوگ اس بد زبانی کا دفاع چند دوسری جماعتوں کی 30 سال پرانی سیاست سے نکالتے ہیں جو کہ واقعتاً ایک بھونڈی کوشش ہے۔ اول تو ایک برائی دوسری برائی کا جواز نہیں ہوتی، دوسرا یہ کہ ان پرانی جماعتوں کو ہم نے اپنے ہوش و حواس میں کام کرتے دیکھا ہے۔

لیڈران کے درمیان تلخ، تند اور تیز جملوں کا تبادلہ ہوتا تھا، چھوٹی موٹی اخلاق سے گری بات بھی ملفوف انداز میں کر دی جاتی تھی مگر کارکنان کے درمیان یہ نہیں چلتا تھا۔ آج “تبدیلی” جس طرح چھپڑ پھاڑ کر اور کپڑے اتار کر ہم پر نازل ہوئی ہے اس میں تو چھوٹے بڑے، عورت مرد، بچے بوڑھے، شریف بدمعاش کی تمیز ہی ختم ہو گئی ہے۔ لیڈران سے لیکر نیچے کارکنان تک وہ ننگی زبان استعمال ہوتی ہے جو پاکستان کے بدنام تھیٹروں میں گھٹیا جگت بازوں نے بھی نا استعمال کی ہو۔ اب بات شروع ہی ذاتیات سے ہوتی ہے اور وہیں پر رہتی ہے۔ ظاہر ہے اس کا ری ایکشن تو موجود ہو گا اور رہے گا۔ اس لیے اس کو اپنی ان گنت مستقل قومی برائیوں کا ایک حصہ سمجھ لیں۔