ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا

عابد حسین

گزشتہ دن سوشل میڈیا پہ دوستوں کے توسط سے سیاسی لیڈران کی تقاریر پہ تعریفی پوسٹس دیکھ کر بڑی مشکل سے ذہن کو اس بات پہ آمادہ کیا کہ خطابات سنے جانے میں حرج ہی کیا ہے اور پارلیمان کے  تاریخی خطابات سے کیوں محروم رہا جائے۔ چوٹی کی بڑی جماعتوں کے بڑے رہنماؤں نے اپنی اہلیت اور قابلیت دکھائی اور اپنی جماعت تئیں  بہترین خطاب کئے۔ ڈیسک بجایا جاتا رہا اور بہت داد ملتی رہی۔

ان خطابات میں اسمبلی کے دو ممبران اختر مینگل صاحب اور محسن درواڑ صاحب کی خشک تقریریں بھی سنی جنہیں ڈیسک بجا کر حمایت بھی نہ ملی اور نہ ہی سوشئل میڈیا پہ پذیرائی نصیب ہوئی۔ مینگل صاحب نے میڈیا کی آزادی پہ سوال اٹھایا اور کہا کہ میڈیا پہ اظہارِ رائے کی آزادی نہیں ہے۔

بلوچستان میں ہونیوالی زیادتیوں ناانصافیوں اور محرومیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بڑے دکھی اور سنجیدہ لہجے میں چند قومی پالیسیوں پہ تحفظات کا اظہار کیا مثلاً جس گوادر بندرگاہ کے بننے پہ سارا پاکستان فخر کر رہا ہے وہی گوادر ابھی تک صاف پانی اور بجلی تک سے محروم ہے۔ جس سوئی سے گیس ملک کے زیادہ تر حصہ کو مہیا کی جارہی ہے وہاں ابھی تک چولہے لکڑی سے جلائے جارہے ہیں۔ بلوچستان فقط کوئلہ۔تانبا اور سونا نہین اگل رہا بلکہ اب مسخ شدہ لاشویں اور اجتماعی قبریں بھی اگل رہا ہے۔

5128 غیر آئینی طور پہ جبری گمشدگیوں کے ثبوت اسپیکر قومی اسمبلی کو دئیے جن میں بزرگ۔بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔اور استدعا کی کہ ہمیں بھی پاکستان کا حصہ سمجھا جائے اور پچھلے ستر سالہ رویوں پہ غور کرنے کا کہا کہ ہمیں حقوق مانگنے اور اپنے ساتھ  ہونیوالی نا انصافیوں پہ پر امن احتجاج کرنے پر غدار اور ملک دشمن کہنے اور سمجھنے کی بجائے ان مسائل کو حل کیا جائے تاکہ ہم آپ کیساتھ چل سکیں۔

اسی طرح ممبر قومی اسمبلی محسن دراوڑ نے اپنی تقریر میں مطالبہ کیا کہ احتساب کو فقط ایوان تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ یہ احتساب کرپٹ ججز کیخلاف بھی ہونا چاہیئے اور آپریش راہء نجات اور ضربِ عضب کے دوران ان کرپٹ جرنیلز کیخلاف بھی ہونا چاہیئے جو ہمارے گھروں کو مسمار کرتے رہے اور لوٹ مار کرتے رہے۔

آپریشنز میں سالہا سال سے کیمپوں میں رہنے والے افراد کیلئے مناسب رہائش کا مطالبہ اور مسنگ پرسنز کو دستورِ پاکستان کے قوانین کے تحت عدالتوں میں پیش کرنے کا کہا۔ حق تو یہ بنتا تھا کہ ان تقاریر میں بیان کئے گئے مسائل اور انکے حل کو زیرِ بحث لایا جاتا اور پاکستانی عوام کی طرف سے اپنے پشتون اور بلوچ بھائیوں کو یہ یقین دلایا جاتا کہ ہم میں کوئی طبقاتی۔قومی یا صوبائی لحاظ سے کوئی فرق نہ ہے آپ اس ملک سے وفادار ہیں اور اس ملک کے ویسے ہی  آزاد اور خود مختار شہری ہیں مالک ہیں جیسے کہ ہم ہیں۔

اعلیٰ عدالتی کی طرف سے  وہاں بسنے والی ماؤں۔بزرگوں۔بہنوں۔ بھائیوں کو یقین دلایا جاتا کہ دستورِ پاکستان تمام پاکستانیوں کی طرح آپ کے حقوق کا بھی ویسے ہی محافظ ہے جیسے دوسروں کےحقوق کا ہے اور یکساں طور پر سب پہ لاگو ہے اور اسے لاگو کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہے۔

محافظ اداروں کی طرف سے یقین دلایا جاتا کہ حفاظتی ادارے بشمول آپ سمیت عوام کی حفاظت کیلئے ہیں کیونکہ اس عوام کی سلامتی سے ہی در حقیقت اس وطنِ عزیز کی سلامتی ہے۔ مگر ہوا یوں کہ اُنکی آواز فقط فضا میں بکھر گئی یا کسی نے یہ خطاب سنے نہیں یا پھر م خاموش رہ کر بہتعین عبادت کا وظیفہ جاری ہے۔

اس سے ظاہر ھوتا ہے  کہ ہم اپنے ماضی کی غلطیوں سے نہ سیکھنے والے لوگ ہیں اور ہماری مثال بھی اس کسان سی ہے جو کھیت کے نقصان کا احساس بھی فصل کے اجڑ جانے بعد کیا کرتا تھا۔