استحصال و قربانی کی متروک یادگاریں

آصف خان بنگش

بڑے ڈیمز کا آغاز جتنا اچھا تھا ان کا انجام اتنا ہی بھیانک ہے۔ ایک وقت تھا جب بڑے ڈیمز کے بارے میں لوگ اشعار کہا کرتے لیکن اب ایسا نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اب اس کے خلاف تحریکیں پنپ رہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فائدہ سے زیادہ نقصان کرتے ہیں۔ بڑے ڈیم اب متروک ہو چکے ہیں، یہ ڈیمز ایک غیر جمہوری اقدام کا نتیجہ ہیں۔ یہ ایک ذریعہ ہیں جس سے ایک حکومت طاقت کا توازن اپنی طرف موڑتی ہے (کس کو کتنا پانی ملے گا، پانی کا رخ کہاں مڑے گا)۔

یہ ڈیمز ایک کسان کو اس کے علم اور مہارت سے محروم کرتے ہیں، یہ ایک ذریعہ ہیں جس میں زمین، قابل کاشت رقبہ اور پانی غریب کاشتکار سے چھین کر امیروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ لاکھوں لوگوں کو بے گھر کے انہیں زمانہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔

اگر ماحولیات کی بات کریں تو بھی یہ نقصان دہ ہیں۔ سیلاب کا باعث بنتے ہیں، زمین کے سیم زدہ ہونے اور کھارے پن کا سبب بنتے ہیں، بیماریوں کو جنم دیتے ہیں اور اس بات کے بھی کافی ثبوت ہیں کہ یہ زلزلوں کی زیادتی کا بھی ایک ذریعہ ہیں۔
عالمی بینک اب اپنا یہ منجن بیچنے تیسری دنیا کی طرف کا رخ کرتے ہیں، بھاری رقوم کا قرض نہائت سخت شرائط پر دیا جاتا ہے جس کے ساتھ ساتھ وہ پرانے ہتھیار، مہنگی مشینری اور زہریلی کیڑے مار ادویات بھی آپ کو بیچتے ہیں۔
ان کی بلین ڈالرز لاگت ان کو اتنا مہنگا بنا دیتی ہیں کہ حکومت کاشتکاروں کو ایسی فصلیں کاشت کرنے کا کہتی ہے جو خود کسانوں کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں۔ کم پانی سے پلنے والی فصلیں جو کہ خود کسانوں کی استعمال میں آسکتی ہیں کی حوصلہ شکنی کر کہ انہیں گنا، چاول اور کپاس کاشت کرائی جاتی ہے، جس سے صنعتکار تو مال بناتے ہیں لیکن کسان کا گزارہ ممکن نہیں۔
اروندتی رائے لکھتی ہیں کہ وسیع طر قومی مفاد کے نام پر لوگوں کا استحصال اور اسے قربانی کا نام دینے کی روایت اب ختم ہونی چاہئے اور اس غیر جمہوری یادگاروں کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہونا چاہیے۔
اوپر لکھے خیالات Arundhati Roy کی کتاب The Cost of Living سے ماخود ہیں۔