بھاگ لگے رہن تے سر سلامت رہے

وقاص احمد

سنیاسی بابوں، نجومیوں، پیروں، فقیروں اور عاملوں کے اس معاشرے میں ایک جنس سب سے زیادہ بکتی ہے۔۔۔اور وہ ہے “جھوٹی امید”۔محبوب آپ کے قدموں میں میٹرک، بی اے کے امتحانات میں کامیابی، ساس کو قابو کریں، شوہر کو اپنا گرویدہ بنائیں، بہو کو تابعدار بنائیں، نوکری کے مسائل کا حل، کاروبار کی بندش، شریکوں کا کاروبار تباہ کروائیں، بیرون ملک سیٹل ہونے کے عملیات۔۔۔

ایمانداری کی بات ہے کہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے شعبے میں پاکستان کے محکمہ زراعت نے جو کام اس ملک میں کیا ہے اس کا ثانی کوئی نہیں۔ اس قوم کی نفسیات پر ریسرچ کے نتیجے میں ہی انہوں نے اپنے کھوکھے پر بٹھائے نجومیوں اور عامل بابوں کو ویسی ہی جھوٹی امیدوں کے نعرے تھمائے ہیں جیسے اوپر بیان کیے۔

پاکستان کے مسائل کا حل ہمارا ایجاد کردہ نظام مصطفی، پاکستان کے مسائل کا حل خلافت، پاکستان کا مسائل کا حل صادق و امین لیڈر، پاکستان کے مسائل 90 دن میں حل کروائیں، گارنٹی کے ساتھ، پاکستان کے مسائل 6 مہینے میں حل کروائیں، پاکستان کے مسئلہ کا حل “لو فیر غوری آیا جے”، پاکستان کے مسائل کا حل جوڈیشیو ملٹری مارشل لاء، پاکستان کے مسائل کا حل ٹیکنوکریٹ حکومت، پاکستان کے مسائل کا حل صدارتی نظام، پاکستان کے مسائل کا حل بنگلہ دیش ماڈل، پاکستان کے مسائل کا حل ملائیشیا ماڈل، پاکستان کے مسائل کا حل چینی ماڈل، پاکستان کے مسائل کا حل مدینے کی ریاست۔۔۔

یہ ضروری ہے کہ محمکہ زراعت کے زیر اہتمام چلتے ان کھوکھوں کے درمیان مسابقتی فضا بھی قائم رہے تاکہ اس ضعیف الاعتقاد قوم کا شعور جاگنے نا پائے اور امیدیں انہی عامل بابوں، سنیاسیوں اور نجومیوں سے منسلک رہیں۔ اور اس مارکیٹ کا اصول ہے کہ اپنی نقلی پراڈکٹ بیچنی ہے تو برابر کے کھوکھے والے سے بڑا جھوٹ بولو اور سینہ تان کر بولو۔ تو آج کل مارکیٹ میں ایک اور بابے نے نیا نعرہ دیا ہے کہ “پاکستان کے مسائل کا حل 48 گھنٹے میں”۔ یہ صاحب کون ہیں، یہ اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ اپنے موجودہ وزیراعظم کی مانند ان کا بھی ایک حلقہ مریدین ہے جو بجا طور پر ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ “ایک چانس اس بابے کو دیا تھا تو ایک چانس ہمارے بابے کا بھی تو بنتا ہے۔” اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ چونکہ ہمارا محکمہ زراعت جدت پسند اور نت نئے تجربات کرنے کا قائل ہے تو کہیں “اس” کے بعد “اس” کی باری لانے کا تجربہ نا کر بیٹھے۔ ملک کا کیا ہے، ملک تو بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں۔ 1947 میں یہ ملک کچھ اور جغرافیہ رکھتا تھا آج کچھ اور جغرافیہ رکھتا ہے تو کیا کوئی زمین پھٹ پڑی یا آسمان ٹوٹ پڑا؟

اللہ کا کرم ہے کہ کم از کم ہمارا محمکہ زراعت زندہ و تابندہ ہے، پھل پھول رہا ہے، انڈے بچے بھی دے رہا ہے۔ سو پھر فکر کیسی؟ یہاں تو شدید پڑھے لکھے جہلا تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اس لیے یہ ملک اور محکمہ زراعت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور بھی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ سو جب تک ہمارے محبان وطن زندہ ہیں اسلام کے اس قلعے سے اسلام کی نشاط ثانیہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کی امید بھی زندہ ہے۔ ویسے بھی تو پاکستان ایک نظریہ کا نام ہے۔ اور نظریے کا کوئی طے شدہ جغرافیہ تو ہوتا نہیں۔ کل کچھ تجربے کرتے ہوئے دو ٹکڑے ہوئے تھے تو بھی “پاکستان” اپنے دو قومی نظریہ کے ساتھ زندہ تھا اور میرے منہ میں خاک کہ آج کے تجربوں کے نتیجے میں آنے والے کل میں دو چار ٹکڑے اور بھی ہوگئے تو جس “خوش قسمت” ٹکڑے کے حصے میں محکمہ زراعت آیا وہی ٹکڑا پاکستان کہلانے لگے گا۔

اس ٹکڑے میں بھی ایسے ہی محمکہ زراعت سے منظور شدہ سنیاسی بابے اپنے اپنے کھوکھوں پر 3 مہینے، 48 گھنٹے اور 24 گھنٹے میں پاکستان کے مسائل حل کرنے کے بورڈ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ محمکہ زراعت کے چیف انجینئر کی تصویر میڈیا میں یوں چھپی ہو گی جس میں وہ شطرنج کی بساط بچھائے یوں مدبرانہ انداز میں بیٹھے ہوں گے جیسے فیصلہ کر رہے ہوں کہ اب کس سنیاسی بابے کی باری ہے اور ساتھ کھڑے مالی، ماچھی، نائب قاصد اور ہیڈ کلرک چہروں پر خوشامدی مسکراہٹیں سجائے ہر ہر چال پر واہ واہ کے ڈونگرے برسا رہے ہوں گے۔اللہ اس منظر کو سلامت رکھےاللہ میرے چیف انجینئرز کو طویل زندگیاں دے۔ایسے ہزاروں سنیاسی بابے ان مسکراہٹوں اور چالوں پر قربان۔بس ایک ڈر لگتا ہے۔۔۔بس ایک ڈر۔۔۔شطرنج کے کھیل میں سنیاسی بابوں کی مانند وزیر گھوڑے فیلے اور رخ تو کم ہوتے ہیں لیکن عوام عرف پیادے تعداد میں کافی زیادہ ہوتے ہیں۔ اور چالیں چلتے چلتے اگر تمام سنیاسی بابے بادشاہ پر قربان ہو جائیں تو پھر پیادوں کے ہاتھوں بادشاہ کی موت بہت اذیت ناک طریقے سے ہوتی ہے۔بس یہی ڈر لگتا ہے۔۔۔باقی بھاگ لگے رہن تے سر سلامت رہے۔