بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات معاشرے کی جنسی گھٹن کا ثبوت ہیں

مہناز اختر

ہم  وہ قوم ہیں جو جنسی زیادتی اور ہراسانی تو برداشت کرسکتی ہے لیکن  جنسی تعلیم و تربیت کا مشورہ  ہمیں  بے حیائی معلوم ہوتا ہے۔ ہم بچوں  اور بالغان کو ان کی ذات اور جنسی تشخص کے حوالے سے شعور اور آگہی دینے  کے مطالبے کو مغرب کا ایجنڈا قرار دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں اگر دس سال کی بچی میں جسمانی بلوغت کے آثار ظاہر ہوجائیں تو اسے “عورت” قرار دے کر شادی اور  “ہمبستری”  کے  لیئے  موضوع  ترین قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہاں جنس کا موضوع بہ یک وقت ٹاپو بھی ہے اور پسندیدہ ترین بھی۔  بلاشبہ پاکستانی معاشرہ ایک مہذب، مذہبی اور روایت پسند معاشرہ ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ان تین اعلیٰ اوصاف پر مبنی معاشرہ ایک ایسا مثالی معاشرہ بھی ہو جہاں سب کچھ اچھا ہے۔  ہم نے مہذب کو بمعنی مقیّد تصور کرلیا ہے اور خود کو تہذیب کے پنجرے میں بند کرکے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے سنگین معاملے کی جانب سے آنکھیں موند کر بیٹھیں ہیں۔  زینب زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی پاکستان کی پہلی یا آخری بچی نہ تھی لیکن پھر بھی زینب زیادتی قتل کیس پاکستان کا اہم ترین کیس تھا۔ اس کیس کا ٹرائل ریکارڈ مدت  میں کیا گیا لیکن کیا اسکے بعد  دیگر پاکستانی بچے اور بچیاں جنسی جبر سے محفوظ رہے؟

 زینب واقعے کے بعد اس  تواتر سے بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کی خبریں سامنے آئیں کہ ایک لمحے کو ایسا لگنے لگا کہ شاید اب ہم اخلاقی تباہی کے اس آخری موڑ پر کھڑے ہیں جہاں  بس عذاب آنا باقی رہ جاتا ہے۔  زیادہ تر واقعات میں سب سے خوف ناک پہلو یہ تھا کہ بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کرنے والا شخص کوئی قریبی عزیز یا محلہ دار نکلا اور اس سے بھی گھناؤنی بات یہ تھی کہ کئی کیسوں میں یہ درندے متاثرہ بچی کا والد، ماموں یا سگے بھائی نکلے۔ امسال صرف رمضان کے مہینے میں جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات نے ہمیں چونکا کر رکھ دیا ہے۔ جنسی زیادتی اور قتل کیئے گئے بچوں کی عمریں  بتدریج گیارہ سے تین سال کے درمیان ہیں۔  دیکھا جاتا ہے کہ اس قسم کے واقعات کے بعد بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینے کا مطالبہ زور و شور سے کیا جانے لگتا ہے۔ اس کے برعکس روایت پسند یا مذہبی طبقہ ایسے واقعات کو بے حیائی اور دین سے دوری کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ  بچوں کو دی جانے والی جنسی تعلیم کیا ہے؟

میرا تعلق انتہائی روایت پسند گھرانے سے ہے۔ بچپن میں نانی سے ایک جملہ بار بار سنتی تھی کہ باپ اور بیٹی کے  درمیان بھی لحاظ اور حد ہونی چاہیے، چچا یا ماموں سے بھی ایک طرح کا پردہ ہوتا ہے ، یا پھوپھا اور خالو سے بے تکلفی بری بات ہے۔ انکا یہ اصول میری تربیت میں شامل رہا۔  بعض اوقات  مجھے نانی انتہائی دقیانوسی لگتی تھیں۔ نانی  اکثر  “ٹچ”  اور غیرضروری طور پر عم زادوں یا دیگر مرد رشتے داروں سے ہاتھ ملانے یا چھونے کے حوالے سے بھی ذہن میں بات ڈالتی رہتی تھیں  کہ مرد ہو یا خواتین  سب سے مذاق یا بات چیت کی حد ہونی چاہیے۔  کسی کو ہاتھ لگا کر نہ  خود  بات کرنی ہے اور نہ کسی کو غیر ضروری طور پر خود کو ہاتھ لگانے کی اجازت دینی ہے۔ کوئی رشتے دار یا جاننے والا  اکیلے میں کچھ دے یا کہیں جانے کو کہے تو ہرگز نہیں جانا ہے اور اگر کوئی تم سے ایسی ویسی بات کرے تو سب سے پہلے مجھے آکر بتانا۔ تم ایک لڑکی ہو اور ہر لڑکی شہزادی ہوتی ہے۔ کوئی بھی تمہیں اس طرح نہیں چھو سکتا جو تمہیں برا لگے یا  جس سے تمہیں رونا آئے۔  میرے خیال سے یہ ایک مؤثر اور روایتی  طریقہ تھا لیکن آج ہمارے پاس ایسے ماہرین موجود ہیں جنہوں نے  سیکس ایجوکیشن کا باقاعدہ طریقہ کار مرتب کیا ہوا ہے۔  یہی تربیت بچوں کو گھر، اسکول اور مدارس میں  دی جانی چاہیے۔ اس بنیادی تعلیم و تربیت کے علاوہ ہمیں بچوں کو انکار اور مزاحمت کرنا بھی سکھانا چاہیے۔

تربیتِ اطفال سے بھی زیادہ اہم کام تربیتِ بالغان ہے۔ بچے جیسے ہی جسمانی بلوغت  کو پہنچیں انہیں صرف طہارت  کے مسائل نہ سمجھائیں بلکہ انہیں ان کے جنسی تشخص کا احساس دلائیں تاکہ وہ کسی بھی قسم کے احساس جرم یا ندامت کا شکار ہونے سے محفوظ رہیں۔ تعلیمی اداروں یا ملازمت  کی جگہوں پر ہر ماہ ایک تربیتی نشست کا اہتمام کیا جانا چاہیے تاکہ بالغ افراد ماہرین جنسیات اور نفسیات سے اپنے مسائل اور رجحانات کے بارے میں بات کرسکیں۔ ہمارے یہاں جنسی تعلیم وتربیت کی کمی کا خلاء  فحش فلمیں، فقہی مسائل کی کتابیں یا نیم حکیم پورا کرتے ہیں اور نتیجہ کچلی ہوئی لاشوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ یہاں بالغان کو جنسی آداب سیکھانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ جس شخص میں جنسی کشش محسوس کریں وہ آپ کو دستیاب بھی ہو یا آپ کسی بھی لڑکے یا لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

جب ہم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اسی ماہ اندرون سندھ سے بازیاب کرائی جانے والی دس سالہ ملوکاں کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے جسے ڈھائی لاکھ کے عوض اسکے رشتے داروں نے ایک نام نہاد نکاح کی آڑ میں ایک پہلے سے شادی شدہ پینتالیس سالہ شخص کو فروخت کردیا۔ ملوکاں کو بازیاب کرائے جانے تک اس کا “شوہر” اسے چار مرتبہ ریپ کرچکا تھا۔ ملوکاں واقعے سے چند روز قبل ہی پاکستان میں مذہبی حلقے چائلڈ میرج بل کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے تھے اور اسے غیرشرعی قرار دیا جارہا تھا۔ ایک ایسا ملک جہاں افراد  کو  کس عمر تک بچہ یا بچی سمجھا جائے، اس بات پر اتفاق موجود نہ ہو وہاں آپ بچوں سے زیادتی یا بچپن کی شادی کے خلاف سخت  قانون سازی  کیسے کرسکتے ہیں؟  کیا دس سال کی بچی یا بچہ  جنسی معاملات کا شعور رکھتے ہیں ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں  بچوں اور خواتین کو جنسی خود مختاری حاصل ہے؟

اپنی مرضی سے شادی کا حق براہ راست جنسی خودمختاری کا معاملہ ہے۔ ہر بالغ پاکستانی کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ کب اور کس سے شادی کرنا چاہتا یا چاہتی ہے یا رشتہ ازدواج میں منسلک افراد کو بھی جنسی تعلق سے پہلے ایک دوسرے کی رضامندی معلوم کرنا لازمی ہونا چاہیے۔ جو لوگ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی شادی کی حمایت کرتے ہیں وہ ایک دفعہ ملوکاں کو اپنے ذہن میں رکھیں اور بتائیں کہ کیا دس سال کی بچی کو اتنی جنسی خومختاری حاصل ہوتی ہے  کہ  وہ اپنے شوہر کو انکار کرسکے؟

میں ملوکاں کے کیس کو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیس کی طرح دیکھتی ہوں۔ پاکستان میں تواتر کے ساتھ چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز سامنے آرہے ہیں اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس وقت  بھی تواتر کے ساتھ کچھ  ناعاقبت اندیش مذہبی علماء کرام لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کی ترغیب دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہی علماء کرام ہیں جو نکاح کو آسان بنانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن  آج کل کے مشکل معاشی اور معاشرتی حالات میں  نسبتاً آسان  اسلامی  میرج کانٹریکٹ  نکاحِ مسیار اور نکاحِ متعہ  کو فروغ دینے کو تیار نہیں ہیں۔  یہ وہی علماء کرام ہیں جنہوں نے  مشکل معاشی حالات میں رشتہ ازدواج کو مشکل بنانے کے لیئے خاندانی منصوبہ بندی اور مانع حمل ادویات کو بھی حرام قرار دے رکھا ہے۔ جس معاشرے کے افراد خصوصاً مرد جنسی گھٹن یا جنسی دباؤ کا شکار ہوں یا جہاں جنسی تربیت اور آداب کا فقدان ہو وہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات پر حیرانی حیران کن ہے۔ اگر صرف سخت سزاؤں سے ہی ایسے واقعات کا تدارک ہوپاتا تو زینب کے مجرم کے انجام سے ان جنسی درندوں کو سبق ضرور ملا ہوتا اور ہمیں یوں  ہر روز کچرے کے ڈھیر اور ویرانوں سے بچوں کی کچلی ہوئی لاشیں نہ مل رہی ہوتیں۔