تبدیلی اور اقتصادی بحران
ریاض چمکنی
قول ہے کہ سیاست اتنا گندا کاروبار ہے کہ سیاست دان وہاں بھی پل تعمیر کرنے کا وعدہ کرلیتے ہیں جہاں دریا موجود ہی نہ ہو۔ پاکستان کی سیاست کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے جب سے پاکستان بنا ہے تب سے لے کر اب تک ہر حکومت پچھلی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتی ہے کہ ان کے غلط اور اقرابا پروری پر مبنی اقدامات کی وجہ سے معیشت اس نہج پر پہنچی ہے۔ سال 2011 میں پی ٹی آئی کی تبدیلی کا نعرہ قریہ قریہ، گاؤں گاؤں اور قصبوں میں گونج اٹھا۔
تو لوگ پھر سے ایک نئے جذبے کے ساتھ جھوم اٹھے کہ اب ہمارے حالات کو تبدیل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس امر نے لوگوں کو بڑے پیمانے پر پی ٹی ائی کو ووٹ دینے پر مجبور کیا اور لوگوں نے پی ٹی آئی کو بھاری اکثریت سے جتوایا۔ انتخابات اور وزراء کی تعیناتی کے بعد لوگ ان بڑے بڑے وعدوں کی طرف متوجہ ہوئے جو پی ٹی ائی نے انتخابات کے وقت کیئے تھے اور ان وعدوں نے عام عوام کی توقعات کو بلندیوں پر پہنچادیا تھا۔ ان وعدوں میں روزگار کی فراہمی، اداروں کی اصلاح، بدعنوانی کا خاتمہ، مفت تعلیم، مفت صحت، عدالتی اصلاحات، بہتر نظام حکومت، اقتصادی بحران کا خاتمہ اور اس کے علاوہ بھی ان گنت وعدے شامل تھے لیکن یہ سارے وعدے اب تک وعدے ہی ہیں۔
پی ٹی ائی کا مشہور نعرہ کہ ملک کو اقتصادی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کردینگے لیکن اگر ملکی اقتصادی صورتحال کو دیکھا جائے تو یہ ایک ڈراؤنا تصور پیش کرتی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بے تحاشہ کمی کرنے کے باوجود بھی ملکی برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا، افراط زر بڑھنے سے مہنگائی کی سونامی امڈ آئی ہے، محصولات اپنے حدف سے کم اکٹھے کیئے گئے، مہنگائی بڑھنے سے لوگوں کی قوت خرید کم ہوگئی جس کے اثرات مجموعی طور پر ملکی معیشت پر نمودار ہوۓ، بینکنگ سیکٹر میں خاطر خواہ اصلاحات نہیں ہوئے یہ اصلاحات ترسیلات زر کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے تھے۔ ایک نئی رپورٹ کے مطابق 2019 اور 2020 کے مالی سال کے پہلے دو مہینوں میں بڑے اور چھوٹے کارخانوں کی قوت فروخت میں تیس فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس سے بڑی تعداد میں لوگ بےروزگار ہوسکتے ہیں۔
وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں تین ہزار پانچ سو نوکریوں کے لیئے ایک لاکھ پچاس ہزار لوگ درخواستیں جمع کراتے ہیں لیکن جب اقتصادی بڑھوتری نہیں ہو رہی ہے، برآمدات جمود کا شکار ہیں، ترسیلات بینکوں کے بجائے ہنڈی حوالے پر آتی ہیں، کپاس کی فصل بڑھنے کے بجاۓ کم ہورہی ہے اور بڑے پیمانے پر مصنوعات تیار کرنے والے کارخانے بند ہورہے ہیں تو نوکریاں کہا سے آئیں گی۔ پاکستان جس کا عالمی منظر نامے پر اثرو رسوخ کم نہیں بلکہ ختم ہونے والا ہے۔ اس کی وجہ بھی ہماری کمزوری اور رینگتی ہوئی معشیت ہے۔
جو بچا کچا کردار دنیا میں ہے تو وہ ہمارے بہترین جغرافیے کی وجہ سے ہے۔ جو دنیا کو ہماری بات ماننے پر مجبور کرتی ہے ورنہ اللہ اللہ۔ اگر آپ کو میری اس بات پر یقین نہیں ہے تو پانچ اگست کے بعد کشمیر کے مسئلے پر دنیا کس کے ساتھ کھڑی ہے یہ آپ لوگوں کے سامنے ہے اور اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ صاحب اقتدار اب بھی ہوش کے ناخن لیں ورنہ آنے والا وقت اس سے بھی زیادہ سخت اور کٹھن ہے۔