تمھیں یاد ہو کہ نا یاد ہو
مہناز اختر
مشرقی پاکستان میں قتل کیے گئے بہاریوں کی ان گنت داستانوں میں سے ایک داستان الم ، یہ داستانوں کا وہ سلسلہ ہے جسے پاکستان میں فراموش کردیا گیا ہے۔
’’ہم نسلاً پٹھان ہیں۔ ہمارے آباو اجداد نے شیر شاہ سوری کے دور میں بہار میں سکونت اختیار کی تھی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے بہار کی شناخت کو اپنی روح میں پیوست کرلیا اور فخر سے خود کو “بہاری” کہنے لگے۔ میں اس وقت کم سن تھی، جب تقسیم ہند کے وقت لاکھوں بہاریوں کی طرح میرے خاندان نے بھی بہار سے مشرقی پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی اور سنتا ہار میں مقیم ہوگئے۔ میں شادی کے بعد سنتاہار سے چٹا گانگ منتقل ہوگئی۔ ہمارے آدھے رشتہ دار بہار میں ہی رہ گئے تھے۔ بڑی بہن کی شادی بھی بلیہ (اتّرپردیش، انڈیا) میں موجود ہمارے خاندان میں ہی ہوئی تھی ۔ میرے پیچھے گھر میں چھ بھائی اور ابّا رہ گئے تھے بعد میں یکے بعد دیگرے میرے بھائیوں کی شادیاں بھی ہوگئیں۔ ہماری زندگی سکون سے گزر رہی تھی ۔ آہستہ آہستہ بنگال کی سیاست میں اتھل پتھل ہونے لگی جو بنگالی ہمارے بھائیوں کی طرح تھے اب ان سے تھوڑا خوف آنے لگا تھا مگر ہمیں بھروسہ تھا کہ پاکستانی حکومت سب کچھ سنبھال لے گئی اور ہمیں مکتی باہنی اور بنگالیوں اور بہاریوں کے مابین نفرت سے جلد نجات مل جائے گی۔
1971 کی بات ہے ابّا سنتا ہار سے چٹاگانگ میری چھوٹی بھابی کی بہن کو لینے آئے تو دو دن میرے گھر رکے اور کہا کہ چھوٹی دلہن امید سے ہے طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تو اگر نازنین بہن کے ساتھ رہے گی تو اسکا خیال رکھے گی (نازنین بھابی کی چھوٹی بہن، مجھ سے عمر میں آدھی بے انتہا خوبصورت، اسکی آواز بہت سریلی تھی ،سارے اردو اور بنگلہ فلمی گانے اسے زبانی یاد تھے)۔ خیر نازنین اور اباّ دو دن کے بعد واپس لوٹ گئے انہی دنوں ہمیں بنگال ریجمنٹ اور مکتی باہنی والوں کی پرتشدد واقعات کی خبریں مل رہی تھیں خوف بڑھتا جارہا تھا اور سب کو پنجاب ریجمنٹ (پاک فوج) کا انتظار تھا پھر ڈھاکہ والا افسوسناک واقعہ ہوگیا اور ہمیں خبر ملی کہ بنگالیوں نے رد عمل کے طور پر سنتا ہار پر دھاوا بول دیا ہے اور انتہائی بے دردی سے بہاریوں کا قتل عام کیا ،خواتین کی عصمتیں پامال کیں گئی اور تقریباً پورے قصبے کو خون سے نہلا دیا گیا ۔ اس سانحہ کا سن کر ویسے ہی خوف رگ رگ میں سما گیا تھا اور پھر وہ خبر بھی سن لی کہ امید علی خان (ابّا) کے گھر کے ستائیس افراد اور دو ملازمین کو حویلی میں گھس کر بڑی بے دری سے قتل کردیا گیا ۔ میرے خاندان کی لاشوں کا ڈھیر دو دن تک ادھ جلی حویلی میں پڑا رہا۔ جب میں نے خبر سنی تو میں اپنے پیاروں کا ماتم بھی نہیں کر پائی کیونکہ چٹاگانگ میں بھی وہی صورتحال پیدا ہوچکی تھی ۔ میرے خاندان سمیت اس علاقے کے تمام افراد نے اپنے گھروں کو آخری بار حسرت سے دیکھا۔ ویسے ہی جیسے میں نے انڈیا سے ہجرت کرتے ہوئے آخری بار اپنے گھر کو دیکھا تھا۔ بڑی مصیبتوں سے گزر کر ہم چٹا گانگ کے کیمپ میں منتقل ہوگئے۔
بعد ازاں پاک فوج نے ہتھیار ڈال دیئے اور بنگلہ دیش آزاد ہوگیا ۔ بنگالیوں نے جشن آزادی بہاریوں کے خون سے منائی کیونکہ مکتی باہنی کے دو ہی نعرے تھے ایک “جے بنگلہ ، سنار بنگلہ” اور دوسرا “روکتو بہاؤ/ Rukhto bahao /خون بہاؤ” سو انہوں نے بہایا۔ کیمپوں میں ہر طرف لٹے پٹے افراد دکھائی دیتے تھے سب کی ایک جیسی کہانی تھی ۔ بہت بھیانک قتل عام ہوا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اپنے ہی وطن میں بدیسی اور غدار کہلائے جانے لگے تھے۔ اب ہماری ساری دعائیں اور امیدیں اس بات پر ٹکی تھیں کہ کب پاکستان کا اجازت نامہ ملے اور ہمارا بلاوہ آئے۔
آخرکار 1974 میں ہم ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی لائے گئے ۔ کراچی سے ہمیں شور کوٹ پنجاب پہنچادیا گیا اور ایک کمرے کا مکان حکومت کی طرف سے ایک دوردراز علاقے میں ملا ۔ ایک سال بعد ہم دوبارہ کراچی منتقل ہوگئے کیونکہ ہمارے کچھ رشتہ دار پہلے سے ہی کراچی میں آباد تھے ۔ یوں اپنی مختصر سی زندگی میں میں نے کئی ہجرتیں دیکھی اور تین بار نئے سرے سے اپنے خاندان کے ساتھ زندگی کی شروعات کی۔ مجھے سن 1946 میں بہار میں ہونے والے مسلم کش فسادات کا خوف اب بھی یاد ہے ۔ جناح صاحب پاکستان بنانا چاہتے تھے کیونکہ ہندوستان میں مسلمان “محفوظ” نہیں تھے۔ ہم نے ان پر بھروسہ کیا اور اپنا گھر بار چھوڑ کر مشرقی پاکستان ہجرت کرلی لیکن بنگال میں مجیب الرحمن کو بھی لگتا تھا کہ بنگالیوں کو ہم پاکستانیوں، پاکستان اور اردو سے خطرہ ہے۔ بنگالی تو مسلمان تھے پھر بھی انہوں نے ہم بہاری مسلمانوں سے زندگی کا حق چھین لیا اور ہم نے ایک بار پھر پاکستان کی خاطر ہجرت کرلی ۔ بنگال سے ہجرت کے بیس سال بعد ایک شادی کی تقریب میں کسی نے بڑی مانوس آواز میں مجھے آپا کہہ کر پکارا میں پہچان نہیں پائی اس ڈھانچہ نما عورت کے سامنے کا ایک دانت ٹوٹا ہوا تھا اور ٹھوڑی سے لے کر ہونٹوں تک ٹانکوں کا نشان تھا۔ سارے بال اوربھنویں بھی سفید تھیں ۔ میں یاد کرنے کی کوشش میں لگی تھی کہ وہ جھپٹ کر میرے سینے سے لگ گئی اور زارو قطار رونے لگی۔ سارے مہمان ہماری طرف پلٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے ۔شاید وہ ادراک کا کوئی لمحہ تھا کہ میں اسکے بتائے بغیر سمجھ گئی کہ وہ نازنین تھی۔
نجانے کتنی دیر ہم روتے رہے ہمارے ساتھ گھر میں موجود باقی عورتیں بھی رونے لگیں۔ میری ایک رشتہ دار ہم دونوں کا ہاتھ پکڑ کر کمرے کے اندر لے آئیں۔ نازنین نے بتایا کہ آٹھ دس لوگوں نے تلواروں کے ساتھ دھاوا بولا تھا سب سے پہلے گھر کے سارے مردوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کیا دو چھوٹے بچوں کو کنوئیں میں پھینک دیا پھر عورتوں کی باری آئی تو ہم نے سوچا کہ اچھا ہی ہوا ہمارے مردوں اور بچوں کو پہلے قتل کردیا ورنہ وہ یہ منظر دیکھ کر وہ ویسے ہی جینے کے قابل نہیں رہتے ۔ وہ ہمیں لاتوں سے مار رہے تھے اور ہمارے جسم کو بھنبھوڑتے جارہے تھے ۔ باجی آٹھ مہینے کی حاملہ تھی پہلے تو اسکے پیٹ پر خوب مکے برسائے وہ اللہ رسول کا واسطہ دیتی رہی مگر وہ اسے نوچتے رہے یہی سب کچھ وہ میرے ساتھ بھی کرتے رہے۔ پتا نہیں کہا ں کہاں مجھ پر چاقو چلایا اور آخری منظر جو نیم بے ہوشی کی حالت میں میں نے دیکھا وہ یہ تھا کہ انہوں نے باجی کے پیٹ کو چیر کر لوتھڑے نما بچے کو نکالا ، “جے بنگلہ” کا نعرہ لگایا اور اسے کنوئیں میں پھینک دیا “۔
میں اس کہانی کو یہیں ختم کرتی ہوں کیونکہ آگے سلسلہ طویل اور مزید دردناک ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اس کہانی میں جھول تلاش کرنا شروع کردیں اور کہیں کہ قتل عام تو بنگالیوں کا بھی بہت ہوا تھا۔ درست، بنگالیوں کو بھی بے دردی سے قتل کیا گیا انکی داستانیں بھی ایسی ہی ہونگی مگر انکی قربانیوں کو دنیا بھر میں عزت دی گئی اور ہر سال بنگلہ دیش کی آزادی کے دن انکی یاد منائی جاتی ہے مگر پاکستان میں ہم صرف زمین کے ایک ٹکرے کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم مناتے ہیں۔
مشرقی پاکستان کی بہاری کمیونٹی وہ واحد کمیونٹی ہے جسے انکی ریاست نے فراموش کردیا۔ آج ہمیں یہ تو یاد ہے کہ مغربی پاکستان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارے بنگالی بھائی ہم سے الگ ہوگئے اور مشرقی بنگال آزاد ہوگیا لیکن ہم یہ بھول گئے ہیں کہ بنگالیوں نے پاکستان کے خلاف نفرت کی آگ کو بہاریوں کے خون سے بجھایا۔ اگر آپ کسی ایسے انسان کو جانتے ہیں جسکے خاندان نے مشرقی پاکستان سے ہجرت کی ہے تو ضرور ان سے انکی ہجرت کی کہانی سنیں خاص طور پر سنتا ہار،چٹاگانگ، کھولنہ، بی بی ہاٹ، شید پور میں ہونے والے بہاریوں کے قتل عام کی کہانیاں جو کسی بھی حساس انسان کے اعصاب کو تھوڑی دیر کے لیئے مفلوج کرنے کو کافی ہیں۔
چاروں صوبوں کی زمین پر جو ریاست پاکستان کے نام سے کھڑی ہے اسکی بنیادوں میں ہجرت کر کے آنے والوں کا خون ہے ۔ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور سرحد والے نظریہ پاکستان کو جیتے ہیں مگر مہاجرین نے “پاکستانیت” کی قیمت اپنے خون سے چکائی ہے اور بنگلہ دیش سے ہجرت کرنے والوں نے دو بار پاکستان سے محبت کی قیمت ادا کی ہے۔