خدا خیر کرے!
مہناز اختر
خدا خیر کرے! پاکستان میں اللہ والوں کو خواب آ رہے ہیں اور مبشرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ “علماءِ کرام” اخبارِغیب سنارہے ہیں کہ پاکستان کی روح اور اسلام قادیانیت کی زد میں ہے۔ ایک سابق بیوروکریٹ لیکن موجودہ دانشور اور ولی اللہ اوریا مقبول جان بھی برسوں سے دل میں چھپائے راز کو افشاں کرچکے ہیں کہ جنرل قمر باجوہ کو پاکستان کی سپہ سالاری خود رسول اللہﷺ نے عطا کی ہے اور اس کی خاص وجہ پاکستان سے قادیانیت کا مکمل خاتمہ ہے۔ مغربی اور مشرقی سرحد کے پار دشمن بھی گھات لگائے بیٹھا ہے کہ کب اور کیسے اس مملکتِ خداداد کو نیست و نابود کیا جائے۔ سرحدوں سے بری خبریں آرہی ہیں اور ٹی وی چینلز کئی روز سے جنگ کا بگل کچھ یوں بجارہے ہیں کہ گویا غزوہ ہند اب ہوا تب ہوا۔ روح اور ایمان کو گرمانے کے لیے ہمارے فوجی جوانوں کی لاشیں اور ختم نبوت کو خطرہ ہے جیسے اشارے ہی کافی ہیں۔ میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ خطرہ تو اب مملکت خدادا کے “منتخب” وزیراعظم کو بھی ہے۔ ایکسٹینشن کی خبر بھی آرہی ہے اور ملک کے “جید علماء” وزیراعظم عمران خان کی طرف سے قادیانیت والے معاملے پہ عدم اطمینان کا عندیہ دے رہے ہیں۔ بقول ان کے عمران خان کی حکومت قادیانیت کے آگے گھٹنے ٹیک رہی ہے۔ ختم نبوت کے پروانے اب ایک آخری وار سے قادیانیت کے خلاف قتال فی سبیل اللہ کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ادھر امریکہ نے بھی ہار مان کر اقرار کرلیا ہے کہ اسے افغانستان میں ہماری ضرورت ہے۔ طالبان بھی نچلے بیٹھنے کو تیار نہیں۔ دیکھا جائے تو افغانی طالبان اور پاکستانی علماء کرام نفاذ شریعت جیسے معاملات پر ایک پیج پر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کب افغانستان میں طالبانی شریعت نافذ ہوگی اور کب پاکستان میں شرعی صدارتی نظام کا قیام عمل میں آئے گا؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جانے کیا سوجھی کہ اسنے مختلف ممالک میں مذہب کی بنیاد پر ظلم و جبر کا شکار افراد کو ملاقات کے لیے بلالیا۔ اب شکایتیں تو وہاں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد نے بھی لگائیں تھیں لیکن ہمیں بس قادیانی برادری سے تعلق رکھنے والے عبدالشکور صاحب اور ان کے مترجم مقتول سلمان تاثیر کے صاحبزادے شان تاثیر دکھائی دیے جن پر پہلے ہی قتل کا فتویٰ دیا جاچکا ہے۔ اب ہونا کیا تھا ملک کی اس مذہبی اقلیت کے خلاف کھل کر نفرت انگیزی کا لائسنس دے دیا گیا۔ اور تو اور کئی مولویان نے تو قادیانیوں کے خلاف قتال کا فتوی بھی دے دیا ہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے بھی کہہ دیا کہ قادیانی امریکی صدر سے مدد مانگیں یا کسی اور سے ختم نبوت کے معاملہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ دیگر مکاتبِ فکر کے شعلہ بیاں علماءِ کرام بھی شعلہ بیانی میں مصروف عمل ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ قادیانیوں سے اختلاف اور مسائل کو سیاسی طور پر بھی حل کیا جاسکتا ہے لیکن ہمیں کیا! کہ بوکوحرام ہو یا داعش یا طالبان سب نے ٹھان لی ہے کہ بعثتِ محمدﷺ کے 1400 سال بعد جب مسلمان دنیا کی کل آبادی کا 23 فیصد ہیں نیز اس کرہ ارض پر پچاس سے زائد اسلامی ممالک اپنا وجود رکھتے ہیں تو ہمیں اسلام بزور تلوار و ہتھیار ہی پھیلانا ہے۔ ماضی میں کشمیر کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان نے امید ظاہر کی تھی کہ اگر 2019 کے الیکشن میں نریندرمودی دوبارہ منتخب ہوکر آجائیں تو کشمیر کے تنازعے پر بہتر طریقے سے بات ہوسکتی لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ ہمارے وزیراعظم کی آس اور امریکی صدر ٹرمپ کی کشمیر تنازعہ پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش پر خود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے پانی پھیر دیا ہے۔
چند ہفتوں سے مسلسل ایک مخصوص متشدد مذہبی پرچار کیا جارہا ہے کہ 1974 کے بعد اب جاکر قادیانی پاکستان کی نظریاتی اساس اور عقیدہِ ختم نبوت پر کوئی حتمی اور کاری وار کرنے کی سوچ رہے ہیں۔ ہم کمزور عقیدہ مسلمان اپنے اپنے ناقص ایمان کو سینے سے لگائے تھوڑے سے قادیانیوں سے تھر تھر کانپتے قادیانیت کے خاتمے کی کال پر لبیک لبیک کہے جارہے تھے کہ اچانک نریندر مودی نے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے کشمیر میں دہشت گردانہ جہاد کو پھر سے جواز دے دیا ہے۔ کل سوشل میڈیا پر ایک مخصوص پیغام گردش کرتا رہا “اگر بھارت بنگالیوں کی مدد کے نام پر مشرقی پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے، امریکہ و روس شام میں مدد کے نام پر داخل ہو سکتے ہیں، تو پھر پاکستان اپنے کشمیریوں بھائیوں کی مدد کے نام پر کشمیر میں داخل کیوں نہیں ہوسکتا جبکہ کشمیری مائیں، بہنیں، بزرگ چیخ چیخ کر پاک فوج کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں” لیکن معاملہ یہ ہے کہ مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید جیسے علمبردارِ جہاد اور “دفاعی اثاثوں” کی ناک میں نکیل تو خود ہم نے ہی ڈال دی ہے۔ سنا ہے کہ لشکر طیبہ کے سپریم کمانڈر مینگل باغ آفریدی نے حکومت پاکستان سے کشمیر جانے کا راستہ مانگ لیا ہے تاکہ وہ صبح سویرے دہلی فتح کرکے ظہر کی نماز ممبئی میں ادا کرے۔ یوں لگتا ہے کہ تختِ سلیمانی اور افواجِ جنات آج کل مینگل باغ آفریدی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ خیر میرا تو مشورہ یہ ہے کہ شوقِ جہاد پر فاتحہ پڑھ لی جائے اور مان لیا جائے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کیونکہ افغانستان میں موجود “اسلامی طالبانی لاٹھی” کو ہم نے ہی افغانستان میں ایک فریق کی حیثیت دلوائی ہے۔ اچھا ہے ایک جانب ملک کے مغرب میں طالبان شرعی اسلامی ریاست قائم کریں گے اور دوسری جانب بھارت میں ہندو راشٹر قائم ہوجائے گی۔
میں سمجھ نہیں پا رہی ہوں کہ فسطائیت پر یقین رکھنے والی مسلمان ریاستیں کس طرح بھارت کو حالیہ فسطائیت کے خلاف قائل کریں گی۔ افغانستان ، پاکستان اور بھارت میں ایک ساتھ مذہبی ریاستیں قائم کردی جائیں گی۔ ایک طرف طالبان منکرینِ طالبانی اسلام کو سرعام کوڑے ماریں گے اور دوسری طرف پاکستان میں قادیانیوں کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے اپنے عقائد سے منحرف ہوکر بادل نخواستہ خود کو غیرمسلم تسلیم کرنا ہوگا اور بھارت میں مسلمان گائے کا گوشت کھانے اور جئے شری رام کی تسبیح نہ پڑھنے پر مار دیے جائینگے کیونکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہوتی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں مسلمان اکثریت پر قادیانی اقلیت کی جان و مال حلال ہو اور بھارت میں ہندو اکثریت پر مسلمان اقلیت کی جان و مال حرام ہوجائے؟
دکھ کی بات ہے کہ اس وقت مہذب دنیا میں مذہبی رواداری اور سویلین بالادستی کے قیام کو ناگزیر قرار دیا جارہا ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان میں عسکری بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے شرعی اور دفاعی جواز گھڑے جارہے ہیں۔ عوام کے ذہنوں کو “پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہے” اور “اسلام اور عقیدہ ختم نبوت کو خطرہ ہے ” جیسے نعرے لگا کر مٹھی میں کرلیا گیا ہے۔ کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران ہم بڑے ذوق و شوق سے بھارت کو خالصتان کے نام کی گوگلی کروا رہے تھے اور یہاں پاکستانی دانشوروں کا ایک خاص طبقہ اس پر تالیاں بجا رہا تھا لیکن ہم بھول گئے کہ تحریک خالصتان کے ساتھ ساتھ کہیں تحریک قادیان بھی زندہ نہ ہوجائے کیونکہ بھارت میں “احمدی مسلمز” کو وہی عزت و احترام حاصل ہے جو پاکستان میں سکھ برادری کو ہے۔ تحریک خالصتان کو طاقت کے انجیکشن لگانے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہیے کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کہنے والے اور تحریک خالصتان کی حمایت کرنے والے پاکستانی کس اخلاقی جواز پر تحریک قادیان کی مخالفت کریں گے؟
خدا خیر کرے! لیکن مجھے تو اندیشہ ہے کہ اس ملک کا سلیکٹڈ وزیراعظم خطرے میں ہے۔ مولویان تو پہلے ہی وزیراعظم کو ببانگ دہل زانی اور قادیانی پکار رہے ہیں کہیں اسی بات کو جواز بنا کر عمران خان کو سائیڈ نہ کردیا جائے کیونکہ کٹھ پتلی ویراعظم سے جو جو کام لینے تھے وہ لیے جا چکے ہیں بس آخری مقصد یعنی ایکسٹینشن کا حصول ابھی باقی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بھارت سے دو دو ہاتھ ، افغانستان سے امریکہ کی محفوظ واپسی اور امن کا قیام ، اور قادیانیت کے مکمل “خاتمے” کے لیے ایک معجزاتی اور کرشمہ ساز شخصیت ہی بطور سپہ سالار مطلوب ہے اور بزرگوں کے خواب کے مطابق جنرل قمر باجوہ ہی وہ ہستی ہیں جنہیں رسول اللہﷺ نے یہ منسب بخشا ہے۔ تحریک ختم نبوت کے پروانے آج بھی خار کھائے بیٹھے ہیں کہ مملکت خداداد میں قادیانیوں کی حفاظت اور تحریک ختم نبوت کو کچلنے کے لیے 6 مارچ 1953 کے روز ملک میں پہلا مارشل لاء لگایا گیا تھا۔ اندیشہ ہے کہ اس بار بھی ختم نبوت کے پروانوں سے وہی کام نہ لے لیا جائے۔ جیسا کہ ماضی قریب میں مولوی خادم حسین رضوی سے لیا گیا تھا۔