قصور آسیہ بی بی کا نہیں، تو کس کا؟

پاکستان کی سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو اپنے ایک تفصیلی فیصلے میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو بے قصور قرار دیتے ہوئے فوری طور پر رہا کرنے کا حکم سنایا۔ دوسری جانب مولوی خادم رضوی اور ان کے حامی فیصلے سے قبل ہی واضح انداز سے کہہ چکے ہیں کہ وہ عدالت کا فیصلہ صرف اس صورت میں تسلیم کریں گے، اگر وہ فیصلہ ان کی منشا کے مطابق آئے، دوسری صورت میں احتجاج کیا جائے گا۔ یعنی مولوی صاحب اور ان کے حواری جو ایک طویل عرصے سے یہ فرما رہے تھے کہ اس سلسلے میں قانون کی بالادستی قائم ہو، انہیں اصل میں ’انصاف‘ کی نہیں بلکہ اپنی تاویلات کی توثیق درکار تھی۔

میری نگاہ میں آسیہ بی بی قصوروار ہیں۔ بالکل ویسی قصوروار جیسے ہم سب ہیں۔ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے، جس میں معاشرے کی بنیادوں میں علم، فکر، شعور، برداشت اور قبولیت موجود نہیں ہے بلکہ جذبات، غصہ، تشدد اور نفرت گھلی ہوئی ہے۔ پچھلے اکہتر برسوں سے ہماری قوم کو سوالات اور غور و فکر کی جانب مائل کرنے یا کائنات کے راز کھوجنے کی بجائے ایک ایسی سیاہ رات کا حصہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے، جس کا انت فقط مزید نفرت، مزید غصہ اور مزید تباہی ہے۔

یہ قصور نہیں تو کیا ہے کہ میں نے توہین مذہب کے موضوع پر جب بھی کسی اسلامی دانش ور، مولوی، مفتی یا اسلام کے اسکالر سے بات کی، معلوم چلا کے سب کے سب پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کے کم از کم پروسیجرل حصے کو غیراسلامی سمجھتے ہیں اور انصاف اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کی نفی سے تعبیر کرتے ہیں، مگر مجال ہے کہ عوامی سطح پر کھل کر یہ بات کر سکیں کہ جو قانون بنیادی اسلامی اقدار ہی کے منافی ہے، اسے کس طرح رائج کیا جا سکتا ہے۔

آسیہ بی بی کو قریب دس سال جیل میں رکھنے کے بعد بلآخر بے قصور قرار دے دیا گیا۔ مگر کیا ہم اس خاتون کی زندگی سے چھین لیے گئے دس برس لوٹا سکتے ہیں؟ اس معاملے کی وجہ سے آسیہ بی بی کا پورا خاندان تباہ ہو گیا، کیا ہم اس خاندان کو دوبارہ پرانے دن دے سکتے ہیں؟ اس معاملے کی وجہ سے سلمان تاثیر کو قتل کر دیا گیا، کیا سلمان تاثیر کو زندگی دی جا سکتی ہے؟ اس معاملے کی وجہ سے ایک قاتل اس ملک میں ہیرو بنا کر پیش کیا جانے لگا اور معاشرے میں عدم برداشت کی ایک نئی روایت پڑی، کیا یہ روایت توڑی جا سکتی ہے؟

ایک انتہائی سادہ سی بات ہمارے فکر و شعور میں نہیں آ پا رہی کہ پاکستان میں توہین رسالت اور توہین مذہب سے متعلق قانون کے دو حصے ہیں، ایک اصولی حصہ ہے، یعنی اگر کوئی شخص توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے سزا دی جائے۔ دوسرا اس قانون پر عمل درآمد کے طریقہ کار کا حصہ ہے کہ ایسے کسی معاملے میں پرچہ کیسے کاٹا جائے گا، گواہی کی صحت کیا ہو گی، شواہد کیسے جمع کیے جائیں گے، تفتیش کیسے ہو گی وغیرہ۔ گو کہ اس قانون کے اصولی حصے پر بھی مختلف دانش وروں کا اختلاف ہے، تاہم اسے ایک طرف رکھ کر صرف طریقہء کار کو بھی درست کر لیا جائے، تو بے شمار انسانی جانیں پچائی جا سکتی ہیں۔

کچھ عرصہ قبل نو برس کے بعد بہاولپور کے ایک شخص کو ایسے ہی ایک مقدمے میں بری کیا گیا۔ عدالت میں بتایا گیا کہ اس مقدمے میں موجود گواہ سماعت ہی کی حس سے محروم ہے، جس کا دعویٰ تھا کہ اس نے ایسا کوئی توہین آمیز جملہ سنا۔ تاہم نچلی عدالتوں اور حتیٰ کے ہائی کورٹ تک کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ اس بے گناہ شخص کو رہا کر سکتے اور بلآخر سپریم کورٹ سے اس شخص کو انصاف ملا۔

ہمارے معاشرے میں پیدا ہونے والے اس خوف کی تاریخ بھی وطن عزیر کے تاریخ جتنی ہی پرانی ہے۔ وطن کے قیام کے فوراﹰ بعد خوف کو بہ طور ہتھیار استعمال کر کے انسانوں کو غلام بنانے کا کاروبار شروع رہا۔ اس کے لیے تاریخ کو بھی مسخ کیا گیا اور اسلام اور اسلامی اقدار کو بھی۔

سوال یہ ہے کہ اسلامی فقہ اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ فقہ کے مطابق اگر کسی شخص سے کوئی ایسی بات سنو، تو خود ہی اس کا کوئی اور مطلب نکال لو، کوئی اور مطلب نہ نکلے تو اس شخص کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ اس کا کوئی اور مطلب تو نہیں، وہ مصر ہو کہ اس کا کوئی اور مطلب نہیں تو ایسی صورت میں ایسے شخص کو حراست میں لے لیا جائے اور مسلمانوں کی ایک جماعت بار بار اس کے پاس جا کر اس سے کہے کہ وہ اپنا یہ بیان واپس لے لے اور اگر وہ اس کے باوجود اپنے بیان واپس نہ لے اور اپنے کہے پر مصر رہے، تو پھر کیوں کہ وہ ’الحاد‘ کا مرتکب ہوا ہے، اس لیے اسے اس کی سزا دی جائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ الحاد کے موضوع پر بھی فقہ اسلامی اور مسلم اسکالرز کا اختلاف ہے۔

آسیہ بی بی اگر قصوروار نہیں تو پھر کوئی دوسرا قصوروار ضرور ہے۔ اس خاتون کے دس برسوں اور اس کے خاندان کی زندگی کے اجیرن بننے، بچوں کے ماں کے بغیر بڑے ہونے اور ایک مسلسل اذیت ناکی کی مرجم ریاست بھی ہے، قانون بھی، معاشرہ بھی اور کسی نہ کسی سطح پر ہم بھی۔ اس لیے آسیہ بی بی کو رہا کرنے سے انصاف (جو اسلام کی بنیادی قدر ہے) نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ ہی ریاست، قانون اور معاشرے اور خصوصاﹰ مولوی خادم رضوی جیسی ذہنیت کے خلاف بھی پرچہ ہونا چاہیے۔ انصاف کی جیت آسیہ بی بی دس برس بعد بے گناہ قرار دے کر رہا کرنے سے مکمل نہیں ہوتی بلکہ اس وقت ہو گی کہ جب یہ طے کر لیا جائے کہ ریاست کسی بے گناہ سے توہین رسالت یا کسی بھی دوسرے جرم یا الزام پر زندگی یا زندگی کے قیمتی ایام یا برس نہیں چھینے گی۔