قومی بہو

احتشام اقبال، ابوظہبی

ميں اپنے ديس کے سياسی نظام کو ايک ايسے گلے سڑے گھرانے سے تشبيہ ديتا ہوں جہاں پر ايک تيز تڑار ساس کی اجارہ داری ہے۔ يہاں پر ساس کا کردار ايک معزز ادارہ،  منتخب وزيراعظم/صدر بہو رانی، پسی ہوئی عوام  شوہر نا مراد، حکمراں جماعت بہو کا گھرانہ ، عظمیٰ صاحبہ ميسنی نند، ميڈيا اور ديگر ادارے خالاؤں، پھپھيوں اور ماسيوں کا کردار ادا کرتے ہيں، جو زيادہ تر جلتی پر تيل چھڑکتے ہيں۔

بہو صاحبہ اور اس کے گھرانے کا کردار آج کل نواز شريف اينڈ کمپنی کے پاس ہے۔  يہاں پر اپوزيشن کو دو گروہوں ميں منقسم کيا جا سکتا ہے، ايک تو وہ اجڑی ہوئی  عورت جس کا نکاح  ماضی قريب يا بعيد ميں ہو چکا ہوتا ہے اور اب اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے گن گنوا کر آنے والے وقت ميں موجودہ دلہن کی جگہ  لے لے ليکن اس کو چونکہ ساس صاحبہ کے ہاتھ لگے ہو تے ہيں، اس ليے ذہنی سطح پہ يہ قدر پختہ ہوتی ہے ۔ آج کی تاريخ ميں يہاں پر پيپلز پارٹی کو ذہن ميں رکھ ليں۔  دوسری وہ دوشيزہ جو ساس کے زير سايہ پروان چڑھی ہوتی ہے اور اس کی بے حد لاڈلی ہوتی ہے۔ ان دونوں کا پيار ديدنی ہوتا ہے اور اس وقت تک قائم و دائم رہتا ہے جب تک کے اس دوشيزہ کا نکاح نہيں ہو جاتا۔ ماضی ميں يہ کردار نواز شريف نے نبھايا آج کل عمران خان اينڈ کمپنی يہاں فٹ ہو رہے ہيں۔

عام حالات ميں ساس صاحبہ  اپنے فرزند کا عقد اس کے پسند کے گھرانے ميں کرانے پر مجبور ہوتی ہے ليکن پہلے دن سے بہو کی حرکات و سکنات پر گہری  نظر رکھتی ہے۔ ساس صاحبہ نہيں چاہتی کے شوہر کا جھکاؤ يا ميلان بيوی اور اس کے گھرانے  سے بڑھے۔ وہ يہ چاہتی ہے کہ بيٹا بس اسی کے پلو سے بندھ کر رہے۔

اسے باور کرايا جاتا ہے کہ اس کی ماں  کے پاس ہی عقل کل ہے ،  وہ ہر غلطی سے مبرا ہر برائی سے پاک مقدس گائے کی مانند ہے۔  بس اک وہی ہے جس نے گھر کو جوڑ کر رکھا ہے، وہ نہ ہو تو چور ڈاکو کب کا گھر کا صفايا کر گئے ہوں۔ اگر اس کے بارے ميں لب کشائی کی تو گھر کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جائيں گے۔

يہ باتيں بچپن سے اس شدت کے ساتھ فرزند کے ذہن ميں ڈالی جاتی ہيں کہ  نہ اس کو گھر کے اندر کے لرزتے ستون نظر آتے ہيں، نہ ہی اس کی زوجہ پر ہونے والی زيادتی پر اس کے سِلے ہونٹ کھلتے ہيں بلکہ وہ اس قدر بے حس ہو چکا ہوتا ہے کے اپنی  ہی لائی ہوئی زوجہ کی بے توقيری پر بتيسی نکالتا، مٹھاياں بانٹتا پھرتا ہے۔ دوسری طرف نئی نويلی دلہن کو شروع دن سے يہ باور کرايا جاتا ہے کہ ہر چھوٹا بڑا فيصلہ ساس کی مرضی سے ہو گا ليکن کچھ  برا ہونے کی صورت ميں بہو اور اس کا گھرانہ آگے آ کر  زمانے کا سامنا کریں گے يعنی کہ ميٹھا ميٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔

مزيد براں بييٹے کی کمائی کا زيادہ حصہ بھی ساس صاحبہ کے پاس آئے گا۔ اب اگر بہو تگڑی نکلے جسے صحيح يا غلط ليکن شوہر کی حمايت و محبت حاصل ہو تو ساس صاحبہ کی تيوڑی چڑھ جاتی ہے، وہ تو ايسی مردہ دل دلہن  چاہتی ہے جسے شوہر پسند ہی نہ کرے، بس ساس کی تابعدار ہو، کھائے پيے عيش کرے، وقت گزارے اور سايڈ پر ہو جائے۔ ايسی بہو شوہر کی ہزار گالياں سن کر بھی ساس کی آنکھ کا تارہ رہتی ہے۔

دوسری طرف اگر شوہر کو ايسی  بيوی مل جائے جس سے وہ قدرے مطمن تو دونوں کو عليحدہ کرنے کے ليے کبھی زبردستی طلاق کرا کے گھر کا کنٹرول سنبھالا جاتا ہے اور کبھی نو وارد دوشيزہ کو دھرنے دے کر نچايا جاتا ہے۔ يہاں پر ميسنی نند کے کردار کو کيسے فراموش کيا جا سکتا ہے جو بظاہر تو بھاوج کی ہمدرد بنتی ہے ليکن وقت پڑنے پر وہ ماں کا بھر پور ساتھ ديتی ہے  کبھی جھوٹے سچے الزام لگا کر بہو کو گھر بدر کرواتی ہے اور کبھی تو مار ہی ديتی ہے۔

اب ان ماں بيٹی کو کون سمجھائے کے ان سب حرکتوں سے نقصان تو گھرانے  اور اس کے افراد کو ہی ہوتا ہے۔ گھر ميں ہونے والی چپقلش سے آس پڑوس کے لوگ  نہ صرف محظوظ ہوتے ہيں بلکہ بھر پور فائدہ  بھی اٹھاتے ہيں۔ آئے دن کی تو تراں بيٹے کو ذہنی مريض اور گھر  کے دروديوار کو کمزور بنا ديتی ہے۔

معزز ساس اور نند صاحبہ، آپ سےدست بستہ التماس ہے کہ آپ يقين رکھيے آپ کے چاہنے والے آپ سے بے پناہ لگاؤ رکھتے ہيں، گھرانے کے ليے آپ کی کاوشيں محبتيں سر آنکھوں پر۔  براہِ کرم آپ مياں بيوی کے آپسی معاملے ميں نہ آئيں شوہر عاقل و بالغ ہے، اگر اسے بيوی پسند نہ آئے تو خود بدل سکتا ہے ۔ اگر آپ اپنے کام سے کام رکھيں تو نہ صرف گھرانہ خوشحال ہو گا بلکہ آپ کی قدر و منزلت ميں مزيد اضافہ ہی ہو گا بصورت ديگر آپ کا اپنا آپ سے بد زن ہو جائے گا۔ شکريہ