معلق پارلیمنٹ بننے کی طرف ایک اشارہ؟

حمزہ سلیم

سیاسی مبصرین کی یہ ایک متفقہ رائے ہے کہ 13 جولائی کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن میں جوش و جذبہ وآپس لوٹ آیا ۔مسلم لیگ ن کے ورکرز اور سپورٹرز میں توانائی بحال ہوچکی ہے۔لیکن دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کچھ دنوں سے بجھی بجھی سی دیکھائی دے رہی ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے کچھ دنوں سے جلسے بھی سپر ہٹ نہیں ہورہے ہیں ۔مبصرین کی رائے میں اس کی وجہ شاید پی ٹی آئی کی تنظیمی کمزوریاں ہیں ۔دوسرا عمران خان کچھ مسائل کی وجہ سے کہیں جلدی پہنچ جاتے ہیں تو کہیں وہ دیر کردیتے ہیں۔

مبصرین یہ بھی کہہ رہے کہ اب تحریک انصاف کوبڑےبڑے جلسے کرنے اور ان جلسوں کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ دو ہزار تیرہ میں عمران خان بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے تھے اور ن لیگ کے چھوٹے چھوٹے چھوٹے جلسے ہوا کرتے تھے ۔لیکن جیت مسلم لیگ ن گئی تھی ۔انتخابی ماہرین کی رائے میں یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت بھی مسلم لیگ ن سنٹرل پنجاب میں جیتتی نظر آرہی ہے ۔لیکن اس مرتبہ ن لیگ سنٹرل پنجاب میں اتنی سیٹیں نہیں نکال پائے گی جتنی سیٹیں مسلم لیگ ن کو دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں ملی تھی ۔مبصرین کے مطابق سنٹرل پنجاب کی 92 سیٹوں میں پاکستان تحریک انصاف آسانی سے 20 سے 25 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی ۔سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو سنٹرل پنجاب میں صرف بیس سے پچیس نشستوں کی ضرورت ہے۔

مبصرین کی رائے میں پی ٹی آئی کو بھی یہ معلوم ہے کہ سنٹرل پنجاب میں ن کی اکثریت ہے ۔مسلم لیگ ن اگر سنٹرل پنجاب میں پچاس سیٹیں حاصل کر بھی لے تب بھی وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی کیونکہ مسلم لیگ ن کا اصل مسئلہ جنوبی پنجاب ہے جہاں اب پی ٹی آئی طاقتور جماعت کے طور پر سامنے آرہی ہے ۔اس کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ن بلوچستان ،کراچی ،سندھ اور خیبر پختونخواہ میں بھی بہت کمزور پوزیشن میں ہے ۔مبصرین کے مطابق مسلم لیگ ن کو اضافی 80 سیٹوں کی ضرورت ہے ،یہ اسی سیٹیں لینا ن لیگ کے لئے آسان نہیں ہوگا ۔ن لیگ کو تمام صوبوں سے کولیشن پارٹنرز چاہیئے ۔وہ کولیشن پارٹنز زیادہ سے زیادہ پی ٹی آئی کے زون میں جائیں گے۔

مبصرین کی رائے میں اگر پنجاب سمیت پاکستان بھر میں یہ تاثر قائم رہا کہ عمران خان کی حکومت بن رہی ہے ۔تو عین ممکن ہے کہ پنجاب سے بھی پی ٹی آئی بہت زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔اس کی وجہ مبصرین یہ بتاتے ہیں کہ پنجاب کے ووٹرز کی نفسیات یہ ہے کہ وہ باونڈری پر بیٹھ کر سیاسی کھیل دیکھتے رہتے ہیں ،جب انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں سیاسی پارٹی جیت رہی ہے تو پھر وہ اسی سیاسی پارٹی کو ووٹ دے دیتے ہیں ۔پنجاب کے ووٹرز کی ہمیشہ یہ نفسیات رہی ہے ۔مبصرین کی رائے میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کا تاثر قائم رہا تو پنجاب میں بھی بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کو مل سکتی ہے ۔جس کے ابھی تک کچھ چانسز دیکھائی دے رہے ہیں۔

کچھ مبصرین کی رائے میں معلق پارلیمنٹ اور مخلوط حکومت کا زیادہ چانس دیکھائی دے رہا ہے ۔موجودہ حالات میں جو سیٹ اپ بنتا دیکھائی دے رہا ہے اس میں پی ٹی آئی کا مرکزی رول ہوگا اور شاید اس مرتبہ شہباز شریف پنجاب کی حکومت سے بھی محروم کردیئے جائیں ۔