ناموس رسالت
سیدہ ماریہ شاہ
’’ناموس رسالت‘‘ یہ الفاظ سنتے سنتے ہمارا بچپن گزر گیا، تب یہ ادراک نہيں تھا کہ اس کا مقصد کیا ہے یا مطلب کیا ہے لیکن یہ احساس ضرور تھا کہ جب بھی ناموس رسالت کی بات ہوتی ہے تو ایک خوف کا احساس دل کو گھیر لیتا ہے۔
آنکھوں میں فرعونیت اور چہرے پہ نفرت سجائے مولوی حضرات ٹی وی پہ للکارتے سنائی دیتے تو سوائے خوف کے ناموس رسالت کی کچھ سمجھ نا آتی۔ جب باشعور ہوئے اور خود سوچنے پرکھنے اور اظہار کی صلاحيت پیدا ہوئی تو ناموس رسالت کے نام پہ کھیلا جانے والا کھیل سمجھ آنے لگا۔ سمجھ آنے لگا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مذہبی ٹھیکیداروں کو ناموس رسالت سے دلچسپی ہے یا اپنے حلوے کی دوکان سے۔ اور ستم ظریفی یہ بلکہ انتہائی مضحکہ خیز صورت حال یہ کہ پاکستان کے باشندے جنھیں مولوی حضرات سے صرف اس قدر دلچسپی ہے کہ ان کے نکاح اور جنازے کا سسٹم ان کی بدولت چلتا رہے اور اس سے زیادہ وہ مذہبی شعار کو اپنی زندگيوں میں اپنانا ہی نہيں چاہتے کیونکہ مذہب ان کی بےراہ روی اور نام نہاد آزادی پہ قدغن لگاتا ہے اور یہ قدغن انہیں دوسرے کے لیے تو پسند ہیں لیکن اپنی ذات کی حد تک نامنظور۔
وہی مولوی جب ناموس رسالت کی بات کرتا ہے تو اپنی عقل کو استعمال کیے بغیر اپنے ہی جیسے انسانوں کی جان لینے کے لیے سڑکوں پہ نکل آتا ہے۔ ناموس رسالت کا نام لے کے کسی کی عزت لوٹی جاسکتی ہے، کسی کا مال ڈکارا کیا جاسکتا ہے اور بہت ہی آسانی سے کسی کے گھر کے کسی چراغ کو گل بھی کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ناموس رسالت ایک اجازت نامہ ہے کسی پہ ظلم و ناانصافی کو جاری رکھنے کے لیے۔ اب تصویر کا ایک اور رخ دیکھیے کہ ناموس رسالت کی جو شق غیر مسلم کے لیے بنائی گئی تھی وہ آج خود مسلمانوں کے گلے کا پھندا بن چکی ہے۔ ان دونوں مسلمانوں ہی کو بار بار کلمہ پڑھ کے اور قادیانیوں کو گالیاں دے کے اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلانا پڑ رہا ہے۔ دانشور ہوں یا سیاستدان، صحافی ہوں یا عام شہری ہر پاکستانی مسلمان اس پھندے کے شکنجے میں ہے۔
اور اب بھی اگر اس قوم نے ہوش کے ناخن نا لیے تو مسلمان ہی مسلمان کو ناموس رسالت کے نام پہ قتل کرتے ملیں گے۔ لیکن افسوس کہ اس قوم نے پہلے کب اپنی معاشی، معاشرتی یا اخلاقی تباہی سے کچھ سیکھا ہے جو اب سیکھ لے گی۔