ٹرمپ کی دھمکی، پاکستان پر کیا قیامت ٹوٹ سکتی ہے؟
عاطف توقیر
امریکا کے صدور ریپبلکن پارٹی سے ہوں یا ڈیموکریٹک پارٹی سے، ان کے درمیان ایک بات ہمیشہ مشترک رہی ہے۔ اور وہ یہ کہ ان کے کسی بھی آئندہ کے اقدام کے بارے میں کچھ بھی واضح انداز سے پیش گوئی نہیں کر سکتا تھا۔ مگر یہ معاملہ ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد بدل چکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ وہی کرتے ہیں، جو وہ کہتے ہیں یا کہہ چکے ہوتے ہیں۔
ٹرمپ انتخابی مہم چلا رہے تھے، تو انہوں نے کئی باتیں کیں اور اس وقت سیاسی مبصرین انہیں فقط انتخابی نعرے قرار دے رہے تھے۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کئی ایسی باتیں کیں، جن کے بارے میں تصور تھا کہ ان پر عمل درآمد امریکا کی روایتی سیاست سے اتنا پرے ہے کہ ان پر چلنا ٹرمپ کے لیے ناممکن ہو گا۔
مگر حقیقت اس کے برخلاف نکلی۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا کہ وہ مختلف مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر دیں گے۔ اس پر انہوں نے عمل درآمد کیا اور عدالتوں کی جانب سے تمام تر روک ٹوک کے باوجود وہ باز نہ آئے اور آخر کار اپنے منصوبے کو عملی شکل دے ہی دی۔
انتخابی مہم کے دوران انہوں نے امریکا کے جوہری ہتھیاروں کو جدید تر بنانے کا اعلان کیا تھا اور شمالی کوریا کے تناظر میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ بیانات بتا رہے ہیں کہ اس شعبے میں بھی موجودہ انتظامیہ نے خاصا کام کیا ہے۔
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا وعدہ بہت سے دیگر امریکی صدور نے بھی کیا تھا، تاہم اس پر عمل درآمد کبھی نہیں کیا گیا لیکن ٹرمپ نے جیسا کہا، ویسا کر بھی دیا۔ دنیا بھر کی مخالفت اور اقوام متحدہ کے اختلاف کے باوجود انہوں نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔
انتخابی مہم میں انہوں نے ایشیا پیسیفک خطے کے ممالک کے ساتھ اوباما دور کے آزاد تجارتی معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا تھا، عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے اس پر عمل درآمد کر دیا۔ یورپ کے ساتھ ٹرانس انٹلانٹک معاہدے کے خاتمے کا اعلان بھی ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں کیا تھا، انہوں نے اس پر بھی عمل کیا اور یہ مذاکرات رک گئے۔
انہوں نے کہا تھا کہ وہ برسراقتدار آ کر نیٹو کے رکن ممالک کو مجبور کریں گے کہ وہ اس دفاع اتحاد کے لیے زیادہ سرمایہ فراہم کریں، انہوں نے اس پر بھی عمل کیا۔ انہوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کا وعدہ کیا تھا، انہوں نے اس پر بھی عمل کیا۔
اوباما دور میں امریکی شہریوں کے لیے ہیلتھ کیئر نظام کو ختم کرنے کی بات بھی ٹرمپ نے انتخابی مہم میں کی تھی اور اس پر بھی انہوں نے عمل درآمد کیا۔ اسی طرح ٹیکس اصلاحات اور دیگر معاملات پر انتخابی مہم میں ٹرمپ کے اعلانات اصل میں صرف سیاسی بیانات نہیں تھے بلکہ وہ تمام تر داخلی اور خارجی اختلافات کے باوجود اپنی مہم کے دوران ’عجیب سمجھے‘ جانے والے دعووں پر بھی وہ عمل درآمد کرتے جا رہے ہیں۔
خوف ناک بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے اگست میں جنوبی ایشیا خصوصاﹰ افغانستان کے لیے اپنی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے ہاں موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی خفیہ ادارے ان دہشت گرد گروپوں کی معاونت کر رہے ہیں۔ اس کے بعد امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن اور نائب صدر مائیک پینس کے علاوہ امریکی جنرل بھی پاکستان کو سخت ترین الفاظ میں متنبہ کر چکے ہیں۔ مائیک پینس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان نوٹس پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا پاکستان کے اندر بھی اپنے کارروائیاں شروع کر سکتا ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے، تو نہ صرف یہ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری پر گہری چوٹ کے مترادف ہو گا بلکہ اس سے خطے بھر میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں کی اجازت دے کر جنرل مشرف اور اس کے بعد کی سیاسی حکومتیں امریکا کو یہ پیغام تو خیر دے چکیں ہیں کہ انہیں اپنے قبائلی شہریوں کے مرنے پر زیادہ تکلیف نہیں ہوتی، مگر اب یہ زہر ملک کے دیگر حصوں کی طرف پھیل سکتا ہے۔
یہ بدقسمتی ہے کہ یہ ایک ایسا چیلنج ہو گا جس سے نبرد آزما ہونا آسان نہیں ہو گا کیوں کہ اگر عسکری قوت کے بل بوتے پر امریکا کو روکنے کی کوشش کی گئی، تو بھی نقصان ہو گا اور اگر امریکا کو نہ روکا گیا، تو بھی تباہی ہمارے گھروں تک پہنچ جائے گی۔
اس سلسلے میں جذباتی نعروں اور فلمی ڈائیلاگ کی بجائے نہایت تدبر کے ساتھ قومی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور اس موقع پر ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان اختلافات کوئی اچھا شگون ہر گز نہیں۔