پانی اور پیاس

مہناز اختر

ایک مشہور و معروف گھونسلا برانڈ بین الاقوامی کمپنی نے پاکستان میں بچوں کو پانی پینے کی ترغیب دلانے کے لییے پانی کی نئی بوتل متعارف کرائی ہے۔ بوتل پر مشہور کامک کرداروں بیٹ مین، سپر مین وغیرہ کی تصاویر موجود ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پیکنگ سے بچوں کو پانی پینے کی ترغیب دینےمیں مدد ملے گی۔ واضح رہے کے پانی کی مذکورہ 330 ملی لیٹر بوتلکی قیمت “صرف” 25 روپے ہے اور اس پانی کا مزیدار، جراثیم سے پاک اور صحت بخش ہونا اس کی اضافی خصوصیات میں شامل ہے۔ اس پانی کی تشہیر پرائم ٹائم کے اوقات میں معروف چینلز پر کی جارہی ہے جو ملک کے طول و عرض شہر شہر گاؤں گاؤں میں دیکھے جاتے ہیں۔ویسے پیاس سے بڑھ کر پانی پینے کی ترغیب اور کیا ہوسکتی ہے؟

خیر ہمیں کیا، اب اس ملک میں بسنے والی آدھے سے زیادہ مفلوک الحال اور بھوکے ننگے عوام کی وجہ سے ہم اچھا کھانا پینا ترک تو نہیں کرسکتے ، نصیب نصیب کی بات ہے۔

آج کل پانی کی ان صاف ستھری رنگین بوتلوں کو دیکھ کر اندرون سندھ اور تھرپارکر کے قلّت آب سے بلکتے اور دم توڑتے بچے یاد آجاتے ہیں اور بڑے شہروں کی مضافاتی بستیوں کے وہ میلے کچیلے بچے بھی یاد آتے ہیں جنہیں پانی پینے کے لیئے ترغیب دلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ازلی “ندیدے” ہیں، ٹھنڈا پانی دیکھتے ہی آنکھوں میں چمک آجاتی ہے۔ ان رنگین بوتلوں کی وجہ سے اچانک دو تین سالوں پرانی تھرپارکر اور مٹھی میں پڑے سوکھے کے حوالے سےمیڈیا پر چلنے والی یہ خبربھی یاد آگئی، ( اندرون سندھ کے دور افتادہ مقام پر ایک قحط زدہ بچے کی لاش ملی ہے، لاش سے کچھ ہی فاصلے پر پیلے رنگ کا گندہ سا چھوٹا گیلن پڑا تھا۔ ڈاکٹر کے مطابق جسم میں پانی کی شدید کمی اور سخت گرمی کی وجہ سے بچے کی موت واقع ہوئی ہے۔ گھر والوں کا کہنا تھا کہ بچہ گھر سے پانی لانے کے لیے نکلا تھا)۔

خیر اچھا ہی ہوا جو بیچارہ پیاس سے مر گیا ورنہ آج پانی کی ان رنگین بیٹ مین والی بوتلوں کودیکھ کر صدمے اور حسرت سے مرجاتا۔ اب اسے کیا خبر تھی کے اس ملک کے علماء اور حکمران رات دن خلافت فاروقی کی یہ مثال ( اگر فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی پیاس سے مرجائے تو اس کی ذمہ داری مجھ پر ہوگی) دیتے نہیں تھکتے اور ماہ محرم میں کربلا والوں کی پیاس کا ماتم کرکر کے دن رات ایک کر دیتے ہیں ۔ یہ گندے بھوک، پیاس اور افلاس کے مارے بچے اس قابل بھی تو نہیں کہ اشرافیہ اور سول سوسائٹی عالمی سطح پر ان کے لیے آواز اٹھائیں یا کینڈل مارچ اور سیمینار کے ذریعے ملک میں صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے حکومت پر زور ڈالیں۔

ٹی وی پر دکھائے جانے والے “پاک وصاف” پانی کے اشتہارات ہر روز ایٹمی طاقت ریاست پاکستان کو غیرت دلانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں کہ آپ کی ریاست کے نلکوں میں آنے والا پانی پینے کے قابل نہیں مگر پھر بھی ریاست کے متولیوں کو شرم نہیں آتی۔ پاکستان کی 44 فیصد آبادی قلّت آب کا شکار ہےاور جسم جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے مضر صحت پانی پبنے پر مجبور ہے۔ کل آبادی کا 50 فیصد سے زائد حصّہ کاروبار حیات کے لیے نلکوں میں آنے والا پانی استعمال کرتا ہے ، یہ وہی پانی ہے جسے پانی کی بوتلوں والی کمپنیاں بڑے وثوق سے مضر صحت قرار دیتی ہیں۔ باقی ماندہ عوام واٹر ٹینکر مافیا اور بوتل مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے اور پاکستان میں ہر سال تقریباً دولاکھ بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورس کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر سال 2020 تک پاکستان میں پانی کی طلب دگنی ہو جائے گی اور صنعتی فضلے کی وجہ سے پانی مزید زہریلا ہوجائے گا۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں مستقبل میں قلّت آب اور فراہمی آب سے متعلق مسائل کس قدر بھیانک شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

بات چلی تھی امراء اور اشرافیہ کے بچوں کو پانی پینے کی ترغیب دلانے سے تو میرے خیال سے پوش علاقوں میں صومالیہ اور تھر کے قحط سے متاثرہ پنجر نما بچّوں کی تصاویر والے بل بورڈز آویزاں کر دینے چاہیے اور نیچے جلی حروف میں تحریر کر دیا جائے کہ ” بچّو! اگر آپ دن بھر مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں پیئیں گے تو ایسے ہوجائیں گے”، یقین جانیے بچّے ڈر کے مارے پانی پینا شروع کردیں گے کیونکہ یہ کہنا تو ظلم ہوگا کہ آپ اپنے بچّوں کو دیگر مشروبات پلانا بند کردیں اور انہیں پیاس محسوس ہونے دیں ، جب پیاس سے زبان خشک ہوکر چپکنے لگے گی اور حلق میں کانٹے اُ گ آئیں گے تو بچّوں کو خود ہی پانی کی طرف رغبتہوجائے گی۔

ان اشتہارات کو دیکھ دیکھ کر کارل مارکس نام کا ایک دیوانہ ضمیر کی طرح بار بار نفس پر ہتھوڑیاں برسانےکے لیے آدھمکتا ہے کہ دنیا میں بس ایک ہی تفریق ہے ، امارت اور غربت ،امیر کا مذہب اجارہ داری و خوشحالی اور غریب کی قسمت مفلسی اور بدحالی ۔ خیر میری کیا حیثیت مارکس نام کے اس وائرس سے تو شاعر مشرق جناب علّامہ محمّد اقبال تک محفوظ نہ رہ سکے تبھی تو جذباتی ہوکر کہہ ڈالا۔

“اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے میسّر نہ ہو دہقان کو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو “