ہزارہ برادری اور ہماری بے شرمی یا لاعلمی (وی لاگ)

عاطف توقیر کا وی لاگ

 
سب سے پہلے تو میں بہ شاعر، بہ طور قلم کار اور بہ طور پاکستانی سرزمین کے بیٹے کے ہزارہ برادری سے بے حد شرمندہ ہوں۔ میرے دیس پر بسنے والی اس انتہائی قلیل آبادی کے ساتھ پے در پے بدترین مظالم اور جرائم پیش آئے مگر میرا قلم اس قوت سے نہیں بولا، جس قوت سے بول سکتا تھا۔
https://www.youtube.com/watch?v=yqxM4OHrep0
مگر میں نہ صرف اس برادری سے لاعلم تھا بلکہ اس کو دیس میں درپیش ان گھناؤنے مسائل سے بھی، جو اب تک سینکڑوں افراد کی جان لے چکے۔ اسی برادری سے تعلق رکھنے والے جنرل موسیٰ کی کمان میں میرے باپ نے پینسٹھ کی لڑائی لڑی تھی۔ اور اس برادری کے اس انتہائی بہادر فرزند نے قوم کا سر جھکنے نہیں دیا تھا۔ مگر اس برادری کو پاکستان سے محبت اور ملک سے جڑے رہنے کے بدلے میں ہم سے ہم دردی میں بولے جانے والے دو لفظ بھی نہیں ملے، ان پر ہونے والے مسلسل اور سفاکانہ ظلم کی ٹھیک سے مذمت تک نہ ہوئی۔
مگر ہزارہ برادری کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ میرے یا باقی قوم کی جانب سے اس خاموشی کی وجہ آپ سے نفرت نہیں تھی، بلکہ بے خبری تھی۔ یہ بے خبری اس وحشت ناک جھوٹ کی وجہ سے ہے، جو ہمیں اپنی دھرتی پر رہنے والی اقلیتوں کی بابت بول کر پیدا کی جاتی ہے، یا اس میڈیا کی وجہ سے جو ملک میں بسنے والے اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کو یہ کہہ کر چھپا دیتا ہے کہ اس سے پاکستان کا امیج خراب ہو جائے گا۔ یہ وی لاگ ایک طرف تو میرا اعتراف بھی ہے اور دوسری طرف اپنی قوم کے لوگوں کو باخبر کرنے کی کوشش بھی کہ وہ جان لیں کہ اس دیس پر بسنے والی ایک برادری پر ظلم، تفریق، عدم مساوات، تذلیل اور نسل کشی تک کے مظالم پر اسے خاموش نہیں رہنا چاہیے۔
میرے لوگو سنو! اس دیس میں ہزارہ برادری کے لوگ بلوچستان میں جن جن علاقوں میں ہزارہ آباد ہیں، ان علاقوں سے باہر نکلنے کے لیے انہیں کسی اچھوت کی طرح کسی دوسرے علاقے میں جانے کے لیے این او سی یا سرکاری اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ پورے علاقے میں پھیلی چوکیوں پر انہیں جگہ جگہ وہ اجازت نامہ دکھانا پڑتا ہے۔ سکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ ایسا انہیں کے تحفظ کے لیے کیا جا رہا ہے، مگر دستورِ پاکستان کی رو سے کسی برادری کو ملک کے اندر نقل و حرکت کو محدود نہیں بنایا جا سکتا۔ ان کی بستیوں میں تو جامعات یا اعلیٰ تعلیمی مراکز ہیں نہیں، تو ہزارہ بچے اور نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے لیے کتنی بار این او سی لیں، کتنی بار گشتی گاڑیوں کے درمیان پڑھنے نکلیں؟
اس برادری کی پاکستان میں کل آبادی قریب نصف ملین ہے، جس میں سے ڈھائی ہزار سے شاید افراد پچھلے کچھ برسوں میں مارے جا چکے ہیں۔ ملکی تاریخ کے بدترین دہشت گردانہ واقعات میں سے چند کا نشانہ یہی برادری تھی۔ کچھ عرصے قبل اسی برادری سے تعلق رکھنے والے سبزی فروشوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ کوئٹہ کی علم دار روڈ پر جہاں ہر طرف سکیورٹی فورسز کی چوکیاں اور مورچے ہیں، پاکستانی تاریخ کا بدترین دہشت گردانہ واقعہ پیش آیا اور مرنے والے سب ہزارہ تھے۔ اسی ہزارہ شیعہ برادری کے زائرین کو بسوں سے اتار کر نام اور چہرے دیکھ کر ذبح کیا گیا۔ اسی برادری کی ایک بستی کے اندر بارود سے بھری گاڑی نے تباہی مچائی۔ ابھی کل ہی ایک سجاد نامی ایک ہزارہ شخص کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔یعنی مظالم کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کا اختتام دور دور تک نظر نہیں آتا اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان مظالم کی ذمہ داری تو لشکر جھنگوی، طالبان اور داعش جیسے گروہوں نے قبول کی مگر آج تک کسی بھی حملے کا کوئی ایک بھی مجرم نہ گرفتار ہوا اور نہ اسے سزا ہوئی۔ ایک ہزارہ شخص نے مجھے بتایا کہ ایک بار ایک ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا، اسے انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے سزا بھی سنائی، مگر وہ اس انتہائی سکیورٹی والی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=nWaNwEnHgYs&t=388s
آپ میں سے ہر شخص صرف ایک لمحے کو یہ فرض کرے کہ وہ اس برادری میں پیدا ہوا ہو، وہ ہزارہ ہو، وہ کئی نسلوں سے اس دھرتی پر بس رہا ہو، جو پاکستان سے محبت کرتا ہو، اور پھر یہ سب ظلم اور باقی قوم کی خاموشی دیکھے۔
افغانستان میں طالبان اور داعش نے اس برادری کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، ایران میں انہیں بربری یا وحشی پکار کر ان سے ان کی پہچان تک چھینی گئی اور انہیں کسی اچھوت کی طرح برتا گیا۔ اور پاکستان میں بسنے والے ہزارہ کو تاریخ کے بدترین مظالم کا شکار بنا دیا گیا۔
یہاں آپ سے کچھ سوالات کرنے کے ہیں۔ ہزارہ افراد اپنا دکھڑا کسے سنائیں؟ کسی دھرتی پر ظلم کا نظام کب تک چل سکتا ہے؟ جب کالعدم جماعتوں کے دہشت گرد اس طرح انسانوں کا قتل عام کریں اور سلامتی کے ادارے ان مجرموں کو پکڑے اور انصاف کے کٹہرے میں لانے میں مسلسل ناکام رہیں، تو اس کی جواب طلبی کس سے کی جائے؟ کیا ملک میں بسنے والے کسی شخص کو فقط فرقے اور نسل کی بنا پر اس انداز کی تفریق کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے؟ کیا ہزارہ افراد کا قتل عام جاری رہے گا؟ کیا میڈیا دیگر اقلیتوں کی طرح اس اقلیت پر ہونے والے مسلسل مظالم پر خاموشی برقرار رکھے؟ ہمارے لیے ہمارا امیج زیادہ اہم ہے یا انسانی جان؟ اور کیا ہم اپنے ملک کی اس مظلوم ترین اقلیت پر ظلم کرنے والوں کی مزمت تک نہیں کر سکتے؟
میں کم از کم اپنے ان ہزارہ دوستوں سے پوری شرمندگی کے ساتھ معذرت کرتا ہوں اور ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ آج کے بعد میرا قلم ملک پر بسنے والی دیگر نسلوں، برادریوں، اقلیتوں، قومیتوں اور رنگوں کی طرح آپ کے معاملے میں بھی پوری قوت سے بولے گا۔