پاکستانی فوج کے خلاف کشمیری نوجوانوں کی منظم ذہن سازی
سردار مہتاب اکبر
آزاد کشمیر دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں پاکستان کے قیام سے 26 دن پہلے ہی 19 جولائی 1947 کو سری نگر میں سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس میں پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان نے سری نگر میں اپنی رہائش گاہ پر اس تاریخی اجلاس کی میزبانی کی تھی جس میں قرارداد الحاق پاکستان منظور ہوئی تھی۔ آگے چل کر 24 اکتوبر 1947ء کو غازی ملت آزاد جموں و کشمیر کے بانی صدر بنے۔ جبکہ سری نگر کے مقام پر تاریخی قرارداد الحاق پاکستان کی منظوری کے بعد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت ڈوگرہ کے مظالم کے خلاف جنگ لڑ کر یہ خطے آزاد کرائے۔
آزاد کشمیر کی اکثریتی عوام نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ الحاق کو ترجیح دی جبکہ غازی ملت بانی آزاد سردار ابراہیم خان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حل کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت سے مشروط قرار دے کر اکثریتی فیصلے کی حمایت کی پالیسی پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھی۔
پاکستان کی حکومتوں نے اقوامِ متحدہ اور مختلف عالمی فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف ادوار میں موثر طور پر آواز بلند کی لیکن جمہوری تسلسل نا ہونے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پر جامع پالیسی مرتب دینے میں کوئی بھی پاکستانی حکومت کامیاب نا ہو سکی۔ جبکہ پاکستانی عوام نے ہر دور میں کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ بھی کیا اور ہمیشہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل میں کشمیری عوام کے ہم آواز ہو کر دنیا بھر میں کشمیریوں کی حمایت کو جاری رکھا۔
آج جب پاکستانی قوم اپنی 75 سالہ جشن آزادی منا رہی ہے تو آزاد کشمیر کے مختلف مقامات پر چند دنوں سے جاری نا خوشگوار واقعات نے ہندوستانی میڈیا اور بی بی سی ہندی پر نمایاں کوریج حاصل کی ہے جس میں ہندوستانی میڈیا اور بی بی سی ہندی نے ہمیشہ کی طرح یکطرفہ رپورٹنگ کرتے ہوئے حقائق سے منافی پراپیگنڈہ اپنی عوام اور دنیا کے سامنے پیش کیا ہے ۔
آزاد کشمیر پونچھ میں حالیہ بجلی کے زائد بلوں کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج جس نے پندرہویں ترمیم اور مختلف لوکل ایشوز کی وجہ سے شدت اختیار کرتے ہوئے مظفر آباد میں بھی عوام کو حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر شریک کر لیا تھا۔ دیکھنے میں یہ آیا کہ خودمختار کشمیر کی حامی تنظیموں نے ان احتجاج کرنے والوں میں شریک ہو کر اپنے نظریات کا بھرپور پرچار کرتے ہوئے سادہ لوح نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان مخالف جذبات ابھار کر سارا ملبہ پاکستان اور پاکستانی فوج پر گرانے کی سازش رچائی ہے ۔
ایسے سازشی عناصر نے بیرون ممالک سے سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور انداز میں آزاد کشمیر کے نوجوانوں میں پاکستان مخالف جذبات کو اجاگر کیا اور انہیں مختلف مقامات پر پاکستان مخالف نعروں کو بلند کرنے پر اکسایا۔ اسکے ساتھ چند مقامات پر بلاوجہ پاکستان کی پر امن مہمان فوج کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے الجھنے کی کوشش کی۔ جبکہ افواج پاکستان کے جوانوں نے نہایت ہی پرامن انداز میں سادہ لوح نوجوانوں سے الجھنے کے بجائے انہیں نظر انداز کیا۔
قارئین کرام!
یاد رکھیے گا کہ پاکستان کی افواج آزاد کشمیر میں حکومت آزاد کشمیر کی درخواست پر دفاع آزاد کشمیر کے معاہدے کے تحت موجود ہیں۔ جس کے خلاف نعرے بازی یا ان افواج کی آزاد کشمیر میں موجودگی پر کوئی بھی آزادی پسند یا خودمختاری کے حوالے سے سوالیہ نشان نہیں اٹھا سکتا۔
ناعاقبت اندیشی کی انتہا دیکھئے اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جن کے باپ دادا سے لےکر خاندان کا کوئی نا کوئی فرد آج بھی افواج پاکستان میں خدمات سر انجام دے رہا ہے اور یہی نوجوان پاکستان بھر میں نا صرف آزادی سے گھوم پھر بھی سکتے بلکہ وہاں جائیداد خرید کر کاروبار کرنے کے علاؤہ وہاں الیکشن لڑ کر اسمبلی ممبر بن کر حتی کہ وزیراعظم اور صدر پاکستان بھی بن سکتے ہیں۔
یہ سادہ لوح پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان کشمیر کی تاریخ سے اتنے نا واقف ہیں کہ انہیں ہندوستان اور ماضی میں ڈوگرہ راج کے مظالم سے آگاہی ہی حاصل نہیں ہے۔ انہیں یہ بھی احساس نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام نے کشمیری عوام کی خاطر کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے کبھی دریغ نہیں کیا ہے اور پاکستانی عوام کشمیریوں کو کھلے دل سے پاکستان بھر میں ہر فورم پر یکساں مواقع فراہم کرتے ہیں۔ پاکستانی تعلیمی نظام سے لے کر سرکاری نوکریوں کے ہر محکمے میں آزاد کشمیر کے شہریوں کا کوٹہ موجود ہے۔
میں یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ آزاد کشمیر کے حکمران حقیقتاً آزاد کشمیر کے عوام کی ترجمانی کرنے میں یکسر ناکام رہے ہیں اور آزاد کشمیر میں ترقیاتی منصوبوں میں کھلی کرپشن کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کے بے روزگار نوجوان جنہیں آزاد کشمیر کے اندر رہ کر جب روزگار حاصل نہیں ہوتا تو وہ پراپیگنڈہ کا شکار ہو کر اس کا سارا ملبہ پاکستان کے ساتھ الحاق کو قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی نوجوان بعد میں پاکستان جا کر کامیاب کاروبار بھی کرتے ہیں اور نوکری بھی پاتے ہیں۔ لیکن کچے ذہن کے ساتھ سوشل میڈیا پر بیرون ممالک بیٹھے ہوئے نام نہاد آزادی پسندوں کے جھوٹے نعروں پر مبنی پراپیگنڈہ کا شکار ہو کر اب آزاد کشمیر میں پاکستانی افواج کے ساتھ الجھنے کی ان کوششوں کو کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکے گی کیونکہ پاکستانی فوج کبھی بھی آذاد کشمیر کے عوام کو اپنے زیر تسلط نہیں سمجھتی اور نا ہی پاکستانی قوم کشمیر کو اپنی جاگیر یا کشمیریوں کو اپنا اسیر یا غلام سمجھتی ہے۔
آج جب ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں دن بدن اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے آزاد کشمیر کو ہڑپنے کی سازشیں رچا رہا ہے جس کا وہ بارہا ذکر کر چکا ہے۔ تو یقیناً ہندوستان کی پالیسی ہی یہی ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام میں تفریق پیدا کرتے ہوئے پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکا کر پاکستانی افواج کے ساتھ الجھا کر عالمی دنیا میں پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو کمزور کرتے ہوئے اپنا غاصبانہ قبضہ مظبوط کرے۔ ہندوستانی ہندوتوا پالیسی کے مطابق سارا کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور وہ آزاد کشمیر پر اپنی غاصبانہ قبضے کی نظریں جمائے ہوئے ہے جسے سردار ابراہیم خان کی قیادت میں لاکھوں کشمیریوں نے جانی و مالی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے حکمران کشمیری عوام کی بے چینی کو سمجھتے ہوئے عرصہ 30 سال سے التواء کے شکار اقتدار کو نچلی سطح پر منتقل کرتے ہوئے عوامی فلاح وبہبود کے ترقیاتی منصوبوں کو بلا تفریق شروع کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی جامع پالیسی مرتب دیں۔ اس کے ساتھ حکومت پاکستان کے ساتھ مختلف پرانے معاہدوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے کشمیری عوام کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے از سرِ نو ترتیب دیے جائیں ۔ جن میں منگلا ڈیم رائلٹی پاکستان میں آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی جائیدادوں کے معاملے سمیت چیف سیکرٹری اور آئی جی کی تعیناتی کے ساتھ کشمیر کونسل کے اختیارات کو کشمیری عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق ہم آہنگ کیا جانا وقت کی بنیادی ضرورت ہے۔
کشمیری سیاستدانوں اور حکمرانوں پر آزادی کے بیس کیمپ کو قائم کرنے کے بنیادی مقصد کی جانب بھی بھرپور توجہ دے کر کشمیریوں کے اصل مشن اور منزل حق خودارادیت کی مہم میں آر پار کے کشمیریوں کو اکھٹا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے لئے کشمیری قوم کو متحد کرتے ہوئے کشمیری سیاستدانوں کا سب سے پہلے خود ایک پلیٹ فارم پر اتفاق رائے سے کشمیری عوام کے بنیادی حق رائے شماری کے حوالے سے عالی سطح پر مہم چلانا کی ذمہ داری عائد ہے جسے آج کے حالات میں عملی جامہ پہنانا ازحد ضروری ہو چکا ہے ۔
یہاں میں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ احساس محرومی بے روزگاری اور کم سوشل سرگرمیوں کی وجہ سے آزاد کشمیر میں نوجوان سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں جس میں انہیں اچھے برے اور کشمیر کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت کی آگاہی نا ہونے کی وجہ سے سازشی عناصر بیرون ممالک سے جلد ہی ان نوجوانوں کو اپنے سازشی جال میں پھنسا کر مذموم مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں۔
حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کو کشمیری نوجوانوں کے لئے جامع حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے انہیں کار آمد باروزگار شہری بنانے کے لئے نئے منصوبوں پر کام شروع کر دینا چاہیے تا کہ معاشرے میں تفریق کا ماحول پیدا کرنے والے عناصر ناکام ہو سکیں اور نوجوان طبقے کو آگاہی اور احساس ہو سکے کہ انکی حکومت اور حکمران عوام کے حقوق کے محافظ ہیں اور عوامی مفادات اور احساسات کا درد رکھتے ہیں۔